زینب کیس سے جڑے تفتیشی اہلکار جائے وقوعہ سے شواہد
اکھٹے کرتے ہوئے۔
قصور
کی معصوم زینب کے قاتل تک پہنچنے میں پولیس اور تحقیقاتی ٹیموں کے ارکان کم و بیش
دو ہفتے لگے۔ قصور جیسے شہر میں جہاں دو سال کے عرصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور
قتل کے دس سے زیادہ واقعات ہو چکے تھے، قاتل تک پہنچنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ
زینب سے پہلے کے واقعات میں بھی پولیس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔ شاید اس بار بھی
محظ کمیٹیاں بنتی رپورٹیں آتیں لیکن اس قتل پر میڈیا پر اٹھنے والے شور اور ملک
بھر میں سوسائٹی کے غم و غصے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ ڈالا کہ وہ
اس واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس کی طرح لیں اور قاتل کی کھوج لگانے اور اسے پکڑنے کے لیے
اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لائیں۔
جنوری
کی 23 تاریخ کو لاهور میں ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے قاتل
عمران علی کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ تفتیشی عہدے دار قاتل تک کیسے پہنچے، یہ عمل
جاسوسی کہانی جیسا ہے۔ زرائع سے ملنے والی اطلاعات اور میڈیا میں شائع ہونے والی
رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل کی گرفتاری میں اس کی جیکٹ کے بٹنوں نے بھی تفتیش
کاروں کی راہنمائی کی۔
زینب 4
جنوری کی شام کو اپنے ایک کزن کے ساتھ ٹیوشن پڑھنے نکلی لیکن اپنی منزل پر پہنچنے
کی بجائے راستے میں ہی لاپتا ہو گئی۔ زینب کا کزن بھی تقریباً اسی کا ہم عمر تھا۔
اسے ٹیچر کے گھر پہنچنے پر پتا چلا کہ زینب اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کی تلاش شروع
ہوئی۔ پولیس میں رپورٹ کرائی گئی۔ پھر کئی روز بعد منگل 9 جنوری کو کوڑے کے ڈھیر
سے اس کا نعش ملی۔ پوسٹ مارٹم سے پتا چلا کہ اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے
بعد بے قتل کر دیا گیا تھا۔
تفتیش
کے دوران تفتیش کاروں کو سی سی ٹی وی فوٹیج ملی جس میں زینب ایک شخص کے ساتھ جاتے
ہوئے دیکھی گئی، فوٹیج میں اس شخص کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ تاہم تفتیش کاروں نے
اندازہ لگایا کہ اس کی عمر 20 سے 45 سال کے درمیان ہو سکتی ہے۔ زینب جس طرح اس شخص
کے ساتھ جا رہی تھی اس سے یہ قیاس کیا گیا کہ وہ اس کا یا اس کے گھر والوں کا کوئی
جاننے والا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق اسی محلے یا آبادی سے ہو۔
قصور
لگ بھگ 7 لاکھ آبادی کا شہر ہے۔ 7 لاکھ کی آبادی میں سے ایک ایسا شخص ڈھونڈنا جس
کی فوٹیج بھی واضح نہ ہو آسان کام نہیں تھا۔ اگر قصور کی کل آبادی میں سے عورتوں،
بچوں اور بوڑھوں کو نکال بھی دیا جائے تو کم ازکم 60 سے 70 ہزار ایسے مرد تھے جن
میں سے ایک قاتل ہو سکتا تھا۔
تفتیش
کاروں نے مزید سائنسی انداز میں آگے بڑھتے ہوئے تقریباً دو اڑھائی میل کے دائرے کا
تعین کیا جہاں ممکنہ طور پر قاتل سرگرم رہا اور اپنے جرم کو پایہ تکمیل تک
پہنچایا۔ جس کے بعد اس علاقے کے 20 سے 45 سال کے عمر کے لوگوں کی فہرست بنائی گئی
جن کی تعداد ساڑھے گیارہ سو تھی۔
ان
تمام افراد کا ڈی این اے لیا گیا اور ان نمونوں کو لاهور میں واقع فارنزک سائنس
لبارٹری میں بھجوا دیا گیا تاکہ زینب کے قاتل کے ڈی این اے نمونے سے میچنگ کی
جائے۔
گیارہ
سو سے زیادہ نمونوں کی ٹیسٹنگ کے بعد عمران علی کا ڈی این اے زینب سے جنسی زیادتی
کرنے والے شخص کے ڈی این اے سے میچ کر گیا۔ حیرت انگیز طور اس ٹیسٹ سے صرف زینب کے
گھناونے قتل سے ہی پردہ نہیں اٹھا بلکہ عمران کا ڈی این اے اس سے پہلے جنسی زیادتی
کے بعد قتل کی جانے والی سات بچیوں سے بھی مل گیا اور اس طرح کئی بچیوں کا قاتل
قانون کی گرفت میں آ گیا۔
ڈی این
اے کی تصدیق عمران علی کے قاتل ہونے کا ایک ثبوت تھا۔ اس کا دوسرا ثبوت اس وقت
پولیس کے ہاتھ لگا جب انہوں نے اسے پکڑنے کے لیے چھاپہ مارا۔ پولیس کو وہاں ایک
جیکٹ ملی جس کے دونوں کندھوں پر بڑے بڑے بٹن تھے۔ یہ ان بٹنوں جیسے تھے جو ویڈیو
فوٹیج میں دکھائی دینے والی اس جیکٹ کے تھے جو زینب کے قاتل نے پہن رکھی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جیکٹ کے بڑے سائز کے بٹنوں نے ایک اور تصدیق کر دی کہ یہ وہی
قاتل ہے جسے وہ تلاش کر رہے ہیں۔
عمران
علی نے جرم کے بعد حسب معمول خود کو چھپانے کے حربے استعمال کیے اور زینب کے رشتے
داروں اور محلے والوں کے ساتھ مل کر اسے ڈھونڈتا رہا۔ پولیس نے جب محلے کے دوسرے
مردوں کے ساتھ اسے ڈی این اے کے نمونے لینے کے لیے بلایا تو اس نے دل کا دورہ پڑنے
کا بہانہ کیا اور پہلے موقع پر خود کو بچا لیا۔
عمران
علی کے بارے میں گرفتاری سے پہلے علاقے میں کوئی خراب تاثر نہیں تھا۔ وہ نعت خوانی
کرتا تھا۔ بچوں کے ساتھ گھل مل جاتا تھا۔ چھوٹی موٹی شرارتیں کرتا تھا۔ کسی کا اس
جانب دھیان بھی نہیں جا سکتا تھا کہ یہ 23 سالہ نوجوان ایک سیریل کلر ہے اور کئی
معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں قتل کر چکا ہے۔ قصور میں
اکثر بچیوں کا ریپ اور قتل اسی علاقے میں ہوا ہے۔
پولیس
کا کہنا ہے کہ عمران علی کو زینب کے قتل کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا
تھا لیکن محلے والے اسے چھڑا کر لے گئے تھے۔ تاہم تفتیش کار اس کی سرگرمیوں پر
مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے۔ وہ مسلسل اپنا حلیہ بدل رہا تھا۔ کبھی داڑھی رکھ لیتا
تھا، کبھی شیو کروا لیتا تھا۔ کبھی شہر سے غائب ہو جاتا تھا۔ اس کی حرکتوں نے اسے
پولیس کی نظروں میں مزید مشکوک بنا دیا اور ڈی این اے کی تصدیق کے بعد اسے گرفتار
کر لیا گیا۔
گرفتاری
کے بعد میڈیا نے رپورٹ کیا کہ عمران علی نے زینب کےاغوا، ریپ اور قتل کا اعتراف
کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ چونکہ زینب کے والدین عمرے کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے
اس لیے میں نے اسے والدین سے ملوانے کا چکمہ دے کر اغوا کیا۔ اور بہت دیر تک اسے
لے کر گھومتا رہا۔ وہ مسلسل یہ پوچھتی رہی کہ اس کے والدین کہاں ہیں اور پھر بعد
میں نے اس کا ریپ کرنے کے بعد گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تاکہ جرم پر پردہ پڑا رہے۔
پولیس
نے عمران علی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے تفتیش کے لیے دو ہفتوں
کا جسمانی ریمانڈ لے لیا ہے تاکہ اس سنگین جرم میں اس کی مدد کرنے والوں کو بھی
گرفتار کیا جا سکے۔
ایک میڈیا رپورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس نے
کہا ہے کہ وہ اس کیس کی سماعت کرنے والی عدالت سے کہیں گے کہ مقدمے کو روزانہ کی
بنیادوں پر سن کر اس کا جلد فیصلہ کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
بشکریہ اردوVOA