وقت نہ ہونی کی سوب ہم یہ دیر سے پوسٹ کررہے ہیں
وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
تصویر کے کاپی رائٹ
جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ہم ان کو
پہلی بار سینے سے چمٹانے، کروٹ دلانے، پوتڑے بدلنے، نہلانے دھلانے سے لے کر خوراک،
صحت، تعلیم اور تحفظ سمیت دنیا کا ہر آرام اور سہولت بساط سے بڑھ کے مہیا کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ ہم سے سب کچھ شیئر کرے، سکول میں
کیا ہوا، چوٹ کیوں لگی، دیر کیوں ہو گئی، پڑھائی میں دھیان کیوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔
جب یہی بچے، بچیاں دس بارہ برس کی عمر تک پہنچتے ہیں تو
ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اب یہ اپنی بنیادی دیکھ بھال خود کر سکتے ہیں لہٰذا
ضروری نہیں کہ وہ ہم سے یا ہم ان سے اسی طرح ہر بات شئیر کریں جس طرح پانچ چھ سال
کی عمر تک کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
حالانکہ بلوغت کی عمر میں داخل ہونے والے دور میں ہی
بچوں کو سب سے زیادہ رہنمائی درکار ہوتی ہے۔جب ان کے جسم نئی نئی تبدیلیوں سے گذر
رہے ہوتے ہیں اور انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں؟ عین
اسی دور میں والدین اور بچوں کے درمیان ججھک کا وہ پردہ حائل ہونا شروع ہو جاتا ہے
جو اب تک نہیں تھا۔
والدین اور بچوں کے مابین ایک لاشعوری فاصلہ پیدا ہونے
لگتا ہے۔ سگے تعلق میں سے بے ساختگی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور دونوں جانب یہ سوچ
پروان چڑھنے لگتی ہے کہ ہر بات بتانے کی نہیں، ہربات سننے یا سنانے کی نہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں والدین اور بچوں کے درمیان عدم
رابطے کے خلا میں کوئی تیسرا داخل ہو جاتا ہے۔ اس تیسرے کی کوئی بھی شکل ہو سکتی
ہے۔ خوف دلانے اور اعتماد متزلزل کرنے والے دیواری و اخباری اشتہارات، فحش فلمیں،
سستا جنسی لٹریچر، ہم جماعت، محلے کے نام نہاد جنسی دانشور، بڑی عمر کے کزنز، رشتے
دار، خانساماں، ڈرائیور، چوکیدار، واقف کار خوانچہ فروش، گھر کے اندر یا باہر نت
نئی گالیاں، رسیلے لطائف، کج رو اساتذہ، منہ پھٹ مولوی غرض کوئی بھی۔
اگر والدین پر زور دیا جائے کہ اپنے بچوں سے مسلسل
کمیونکیشن ان بچوں کے بہتر اور محفوظ مسستقبل کے لیے کس قدر اہم ہے تو اکثر سرپرست
شتر مرغ بن کے جوابی دلائل کی ریت میں سردبا لیتے ہیں۔
مثلاً بچوں سے جسمانی تبدیلیوں پر بات کرنا مشرقی تہذیب
نہیں، عمر کے ساتھ ساتھ بچے خود بخود اونچ نیچ سمجھ لیتے ہے جیسے مچھلی کے بچے کو
کوئی تیرنا تھوڑی سکھاتا ہے، آج کل میڈیا نے سب سکھا پڑھا دیا ہے لہٰذا ہمیں بچوں
سے جسمانی و ذہنی الجھنوں پر بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ گھر کی تربیت اچھی ہو
تو بچے نہیں بگڑتے نہ کوئی انہیں ورغلا سکتا ہے۔
ہاں قریبی رشتے دار بچوں کا جنسی استحصال کر سکتے ہیں
یا انہیں حراساں کر سکتے ہیں مگر ایسا مغرب میں زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں خاندانی
نظام کی جڑیں اب بھی مضبوط ہیں اور ہر کوئی ہر کسی کے بارے میں جانتا ہے، یہ سب
مغربی بالخصوص مخلوط تعلیم کا نتیجہ ہے، دینی مدارس میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا یہ
محض یہودی پروپیگنڈہ ہے، کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ
پورا معاشرہ خراب ہے، جب سے پردے کا رواج کم ہوا تب سے بے راہروی بڑھی ہے، اگر کسی
خاندان میں یا گھر سے باہر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو اس کی تشہیر سے بدنامی کے ساتھ
ساتھ جنسی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر دو چار کو سرِعام پھانسی پر لٹکا دیں تو
سب ٹھیک ہو جائے گا۔ خرابی ہم میں نہیں ریاستی ڈھانچے اور قوانین میں ہے وغیرہ
وغیرہ۔
اور جب کوئی المیہ رونما ہوتا ہے تو کسی کی سمجھ میں
نہیں آتا کہ ان کے بچے کے ساتھ ایسا کیوں ہوگیا۔ دنیا جہان کی وجوہات تلاش کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے سوائے اپنے محاسبے کے اور چند دن کی ہنگامہ آرائی اور سینہ کوبی
کے بعد پھر امن ہوجاتا ہے۔ ہم پھر سے فرض کر لیتے ہیں کہ فلاں بچے کی قسمت خراب
تھی۔ ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔
صرف اپنے بچے سے مسلسل بات کرتے رہنے کی بنیادی ذمہ
داری سے بچنے کے لیے ہم ہزار جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ چلیے مت کیجیے بات مگر کچھ
ایسا کیجیے کہ اس کے بارے میں پہلی اطلاع آپ کو اپنے بچے ہی سے ملے نہ کہ آخری
اطلاع دنیا سے ملے۔
بشکریہ بی بی سی اردو