سارہ حسن
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام
آباد
تصویر کے کاپی رائٹ
’اماں
یہ ٹی وی پر بار بار میرا نام کیوں آ رہا ہے، میں بھی تو زینب ہوں۔‘
ٹی وی پر سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے میری ساڑھے تین سال
کی بیٹی نے مجھ سے جب یہ سوال کیا تو میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا، صرف پیار سے
اُسے گلے لگایا اور پرنم آنکھوں سے جب حسرت و محبت سے اُس کی جانب دیکھا تو ایک
اور سوال میرا منتظر تھا، 'اماں رو کیوں رہی ہیں' ایک بار پھر جب کوئی جواب نہ ملا
تو صرف یہی کہا کہ 'زینب میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔'
اگر آپ صحافی ہے ہیں تو آپ گھر پر بھی خبروں سے دور
نہیں رہ سکتے ہیں، اس دن نیوز چینل قصور میں کم سن بچی کے جنسی زیادتی کے بعد قتل
اور اس کے بعد حالات کی کشیدگی کا احوال بیان کر رہے تھے۔ لوگوں میں دکھ اور بے
بسی نے انھیں مشتعل کر دیا تھا۔ بابا بلھے شاہ کے قصور کو آخر کس کی نظر لگ گئی؟
قصور ہی میں بار بار بچے کیوں نشانہ بن رہے ہیں؟ پولیس کہاں ہے؟ میں بھی یہی سب
سوچ رہی تھی کہ میری بیٹی نے آ کر مجھے مخاطب کیا اور زینب کے بارے میں پوچھا۔۔
پیشہ ور صحافی ہوں کبھی کوئی بم دھماکہ، کبھی کوئی اور
سانحہ، ان واقعات کی رپورٹنگ کے بعد کسی حد تک تو یہ کہہ سکتی ہوں کہ میرے اعصاب
قدرے مضبوط ہیں لیکن پاکستان کے شہر قصور میں ایک کم سن بچی کو جنسی زیادتی کے بعد
موت کے گھاٹ اتار دینا، صرف خبر نہیں ہے جو بس رپورٹ ہوئی اور ختم ہو گئی۔
ایک صحافی کے ساتھ ساتھ میں ایک ماں بھی تو ہوں، اسی
معاشرے میں میری زینب بھی پروان چڑھ رہی ہے، اُسے بھی باہر نکلنا ہے لوگوں کا
سامنا کرنا، آگے بڑھنا ہے، اپنا دفاع کرنا ہے۔
قصور کے واقعے نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے،
مختلف خدشات اور خوف دل و دماغ پر ایسے غالب ہیں کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے۔
قصور کی زینب کا معصوم اور مسکراتا چہرہ آنکھوں سے
اوجھل نہیں ہو رہا ہے۔ میں چیخ کر رونا چاہتی ہوں۔ فریاد کرنا چاہتی ہوں، کہتے ہیں
ظلم حد سے بڑھتا ہے تو عذاب آتا ہے، یہ سب کیا ہے؟
اس ملک میں چھ ماہ کے دوران سات سو سے زیادہ بچے جنسی
ہوس کا نشانہ بنے۔ کسی نے کبھی سوچا کہ اُن پر کیا گزری ہو گی، اُن کے ماں باپ،
بہن بھائی کس کرب میں مبتلا ہوئے ہوں گے، کیسے جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھنے والے بچوں
کا اعتماد بحال کیا جائے کہ وہ اپنی تکلیف بھول جائیں۔
زینب کا مسکراتا چہرہ سوال کر رہا ہے کہ میرا قصور کیا
ہے؟ اتنے واقعات ہوئے لیکن کوئی پکڑا کیوں نہیں گیا؟
زینب کی ماں اور مجھ جیسی مائیں تو یہ چاہتی ہیں کہ کب
سفاک قاتل پکڑا جائے تو ہمیں بھی کچھ تسلی ہو، کچھ سکون ملے زخم تو بہت گہرا ہے،
بھرتے بھرتے وقت لگے گا۔
میں اس بارے نہیں سوچنا چاہتی کہ ہماری معاشرے میں ایسے
لوگ کیوں ہیں؟ کیوں درندگی بڑھ گئی؟ انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ میں تو بس یہ
جانتی ہوں کہ بچے معصوم ہیں، انھیں ہم نے بچانا ہے، ہم سب نے مل کر ان کا مستقبل
سنوارنا ہے۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات تو امریکہ اور برطانیہ
جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی ہوتے ہیں لیکن مجرموں کو پکڑنے کے بعد سزا ملنے سے
ان واقعات کی حوصلہ شکنی ضرور ہوتی ہے تو پھر یہاں بچوں سے زیادتی کے اتنے کیسز
رپورٹ ہونے کے بعد اب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں؟ کیا ان بچوں
کو محفوظ کرنا اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے؟
اُس دن سے اب تک گاہے بگاہے بے اختیار اپنی بیٹی کو پاس
بلا کر گود میں بیٹھا کر یہی سمجھا رہی ہوں کہ 'زینب میری بات غور سے سنو! کسی
اجنبی کے پاس نہ جانا، کوئی آپ کو غیر ضروری ٹچ نہیں کر سکتا کوئی بات ہو آ کر
اماں کو بتانی ہے۔ بیٹا کسی سے ڈرنا نہیں ہے تم بہت بہادر ہو۔'
شاید یہ میرے اندر کا خوف ہے یا شرمندگی، جس کا میں
مدوا اپنی بیٹی سے بات کر کے کر رہی ہوں۔
قصور کی زینب تم تو بے گناہ ہی ماری گئی ہو، ابھی تو تم
نے بہت سی بہاریں دیکھنا تھی، تم کیسے ہی بن کھلے مرجھا گئی۔ میں تم سے بہت شرمندہ
ہوں مجھے معاف کر دینا، میں بہت غم زدہ ہوں۔
بقول فیض:
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کہ بھرے گلستان سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے۔۔۔
بشکریہ بی بی سی اردو