بروقت کارروائی سے زینب جیسی بچیوں کو بچایا جا سکتا تھا


زینب (فائل فوٹو)

اسلام آباد :پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے صوبہ پنجاب کے شہرقصور میں سات سالہ زینب سے زیادتی اور قتل کے واقعہ کی تفیتش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک معصوم لڑکی کےخلاف نہایت سنگین جرم کا ارتکاب کیا گیا اور اگر پولیس نے ماضی میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بروقت کارروائی کی ہوتی تو زینب جیسی کئی بچیوں کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔
زینب کو رواں ماہ کے اوائل میں نامعلوم شخص نے اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کر دیا تھا اور اس کی لاش اغوا کے پانچ روز بعد کچرے ایک ڈھیر سے برآمد ہوئی تھی۔
اس واقعے پر پاکستان میں نہ صرف عوامی سطح پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا بلکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس سے اس واقعہ پر رپورٹ طلب کی تھی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے اتوار کو لاہور میں اس معاملے کی دوبارہ سماعت کی ۔
پنجاب پولیس کے ایک سینئر عہدیدار نے واقعے کی اب تک ہونے والے تفتیش سے عدالت کو آگاہ کیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کرنے والے ملتان ڈویژن کی پولیس کے سربراہ محمد ادریس نے بینچ کو بتایا کہ 2015ء سے لے کر اب تک قصور میں آٹھ لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا جن میں زینب بھی شامل ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک ہونے والے تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے ان واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔ محمدادریس نے عدالت کو بتایا کہ اس کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر پولیس نے 2015ء میں بروقت کارروائی کی ہوتی تو آٹھ بچیوں کی زندگی کو بچایا جا سکتا تھا۔
پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کے واقعات اکثر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور بچوں کے حقوق کےتحفظ کے لیے سرگرم کارکنان ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے انتظامی اور معاشرتی سطح پر وسیع تر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔
پنجاب حکومت کے بچوں کے تحفظ اور فلاح سے متعلق ادارے کی سربراہصبا صادق نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زینب کا واقعہ ایک امتحان ہے کہ بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول کی تشکیل کیسے کرنی ہے۔
" بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں ہم آئی جی پولیس سے بھی ملتے رہے ہیں اور انہیں بتایا کہ بچوں کے معاملات انتہائی حساس ہیں اور انہیں روٹین میں نا دیکھا جائے ۔ اب ہم ایسے بچوں کی تلاش کے لیے ایمبر الرٹ سسٹم پر ہم نے کام مکمل کر لیا ہے اور جلد ہی پنجاب میں یہ سسٹم قائم کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی بچے کے لاپتا ہونے کی صورت میں فوری کارروائی کی جا سکے اور ان کی جان بچائی جا سکے۔ "
صبا صادق نے کہا کہ اب اسمارٹ فون پر ایسے ایپ متعارف کروا رہے ہیں تاکہ لاپتا ہونے والے بچوں سے متلق متعلقہ اداروں کو فوری طور پر آگا ہ کیا جاسکے۔
" موبائل فون پر ہم ایک ایسے ایپ متعارف کروارہے جس پر کسی بھی لاپتا ہونے والے بچے کی تصویر اور دیگر معلومات پوسٹ کی جا سکیں گی تاکہ اس بچے کی تلاش کے لیے یہ معلومات فوری طورپر تمام متعلقہ اداروں تک پہنچ پائیں۔"
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کو نہایت مشکل صورت حال کا سامنا رہتا ہے اور ان میں سے کئی ایک کو جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اگرچہ حالیہ سالوں میں حکومت نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کئی قوانین بھی وضع کیے ہیں تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ قوانین پر موثر عمل درآمد کروا نا حکومت کے لیے اب بھی ایک چیلنج ہے۔

بشکریہ اردوVOA