چودہ دن تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد قصور واقعے کے ملزم
عمران علی کو لاہور کے قریب واقع شہر پاکپتن سے گرفتار کیا گیا۔
عمران قصور شہر میں کورٹ روڈ کا
رہائشی اور سات سالہ زینب انصاری کا محلے دار ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زینب کے
ماموں زاد بھائی مزمل انصاری نے بتایا کہ ان کے خاندان کا عمران سے کوئی تعلق نہیں
تھا تاہم وہ اس کو جانتے ضرور تھے۔ زینب کے ماموں زاد بھائی مزمل انصاری کے مطابق
عمران ان کے خاندان سے اچھی طرح واقف تھا۔
ملزم نعت خوانی کے محفلوں میں
نعتیں پڑھتا تھا لیکن اس کے پاس کوئی روزگار نہیں تھا۔ نعت کی محفلوں سے متعلق ایک
کارڈ پر اس کا نام عمران علی نقشبندی لکھا ہے جس پر ایک پتہ بھی درج ہے۔ ان کا
کہنا تھا کہ ملزم کے بارے میں ان کے محلے میں یہ مشہور تھا کہ وہ چھوٹی موٹی
چوریوں میں ملوث تھا۔
مزمل انصاری نے بتایا کہ ان کے خاندان والوں نے عمران ارشد نامی اس
شخص کے بارے میں ابتدا ہی سے پولیس کو اپنے شکوک و شبہات سے آگاہ کیا تھا جس کے
بعد اس سے تفتیش کی گئی تھی اور چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس وقت ڈی این اے میچنگ کا سلسلہ
شروع نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم اس کو دوسری مرتبہ چند روز قبل گرفتار کرنے کے لیے
پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔
گرفتاری
اور ’اعتراف جرم‘
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک
سینیئر پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ تفتیش کے دوران عمران نے تمام آٹھ
بچیوں پر جنسی حملوں اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔
پولیس افسر نے کہا کہ یہ شخص بچیوں
کے ساتھ زیادتی کے بعد انھیں قتل کر دیتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے مطابق
وہ اس فعل میں تنہا شامل تھا اور اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔
جس کے بعد اسے گذشتہ روز لاہور کے
قریب پاکپتن سے گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے مطابق ملزم کے ڈی این اے
کے نمونے پنجاب فارنزک لیبارٹری میں بھیجے گئے تھے تاکہ اس بات کی تصدیق ہو سکے کہ
وہ مرکزی ملزم ہے۔ پولیس کے مطابق اس کے ڈی این اے کا نمونہ زینب کے جسم سے حاصل
کیے گئے قاتل کے ڈی این اے کے نمونوں سے مطابقت رکھتے تھے جس سے یہ ثابت ہوا کہ
وہی زینب سمیت ان آٹھ بچیوں پر جنسی حملوں اور قتل کی وارداتوں کا مرکزی ملزم ہے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ایک
عہدیدار کے مطابق عمران کو اس کا ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ
ابتدائی تفتیش کے بعد سے وہ زیرِ نگرانی تھا۔ گرفتاری کے بعد اس کے ڈی این اے کے
نمونے لیے گئے جن کا موازنہ تفتیش کے دوران حاصل ہونے والے ممکنہ قاتل کے ڈی این
اے سے میچ کیا گیا۔
24 گھنٹے کے اندر اس کے
مثب نتائج سامنے آنے کے بعد اس امر کی تصدیق ہو گئی تھی کہ عمران ہی مطلوبہ اور
مرکزی ملزم تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو