تصویر کے کاپی رائٹTWITTERنقیب
اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف کراچی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا
کراچی میں ملیر کے تھانے سچل میں
ایس ایس پی راؤ انور کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقتول نقیب
اللہ کے والد کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
قبل ازیں کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی
تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ثنا اللہ عباسی نے کہا تھا کہ
انھیں ’جعلی‘ پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق یہ بات انھوں نے منگل کو
سہراب گوٹھ میں محسود جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے محسود قبیلے کے لوگوں
سے اپیل کی ہے کہ وہ پرامن رہیں۔
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ
محسود کو شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے
کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔
محمد خان محسود نے ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ تین
جنوری کو مبینہ طور پر راؤ انوار کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب
اللہ اور حضرت علی اور قاسم کو اٹھاکر لے گئے بعد میں 6 جنوری کی شب حضرت علی اور
قاسم کو سپر ہائی وے پر چھوڑ دیا لیکن راؤ انوار نے نقیب اللہ کو قید رکھا اور اس
کے موبائیل فون بھی بند کردیا۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ کے رشتے دار
اس کی تلاش کرتے رہے لیکن معلوم نہیں ہوا۔ ان کے والد نے ایف آئی آر میں کہا کہ 17
جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو راؤ انوار اور اس
کے اہلکاروں نے جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا لہذا ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا
جائے۔
پولیس انسپیکٹر شاکر نے ایف آئی آر میں تحریر کیا ہے کہ
اس واقعے کی وجہ سے عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلا اس لیے اس میں اسنداد دہشت
گردی کی بھی دفعہ شامل کی گئی ہے۔
تاہم نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ اور قریبی ساتھیوں نے
اس دعوے کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا کسی شدت پسند تنظیم سے کوئی تعلق
نہیں تھا اور وہ کراچی میں محنت مزدوری کرتے تھے اور ماڈلنگ کے شعبے میں دلچسپی
رکھتے تھے۔
نقیب اللہ کے قتل کا پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس
نے ازخود نوٹس لیا ہے اور اب 27 جنوری کو راؤ انوار کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم
دیا ہے۔
حکومتِ سندھ کی ہدایت پر آئی جی سندھ نے اس معاملے کی
تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی بنائی تھی جس کے سربراہ ثنا اللہ عباسی کا کہنا تھا
کہ نقیب اللہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور یہ کہ کوئی بھی
قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں راؤ انوار کو معطل کیا جا
چکا ہے اور انھیں منگل کی صبح ملک سے باہر جانے سے بھی روک دیا گیا جبکہ سپریم
کورٹ نے انھیں 27 جنوری کو طلب بھی کر لیا ہے۔
’تعلق
کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لائسنس تو کل دے دیا جائے‘
ادھر سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کا کہنا
ہے کہ کسی فرد سے تعلق کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لائسنس تو کل دے دیا جائے۔
صوبائی وزیر داخلہ نے منگل کو نقیب اللہ محسود کے مبینہ
قتل کی تحقیقات کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہویے کہا کہ
میڈیا میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ راؤ انوار کا آصف علی زرداری کے ساتھ تعلق ہے۔
’بھائی تعلق ہونے کا یہ ہرگز مطلب
نہیں ہے کہ اسے لائسنس ٹو کل دے دیا جائے اور تعلق کا یہ بھی مقصد نہیں ہے کہ ہم کسی
کا دفاع کریں گے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کا
نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی تجویز دی تھی
ان کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ کے معاملۂ قتل میں ’رپورٹ
بنانے میں جو ایک بڑا حصہ رہتا ہے وہ ایف ائی آر ہے جس کے بغیر تحقیقات ایک جگہ پر
رکی ہوئی ہیں۔ جیسے ہی خاندان ایف آئی آر درج کرائیگا تو ایک قانونی مرحلہ مکمل ہو
جائے گا۔‘
سہیل انور سیال کا یہ بھی کہنا تھا کہ راؤ انوار کو اگر
کسی تفتیشی افسر پر اعتراض ہے تو وہ آئی جی کے روبرو پیش ہو کر انھیں آگاہ کریں۔
’انھیں کمیٹی کے پاس پیش ہونا چاہیے اور اگر نقیب اللہ کے خلاف کوئی شواہد ہیں تو
پیش کرکے خود کو بے گناہ ثابت کریں۔‘
اس سے پہلے کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت
قتل میں مبینہ طور پر ملوث معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے
پر ایک بین الاقوامی پرواز سے اتار لیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کے حکام نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک
کو بتایا کہ راؤ انوار کو منگل کی صبح اسلام آباد سے دبئی جانے والی پرواز ای کے
653 سے اتارا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ راؤ انوار جہاز میں سوار ہونے میں
کامیاب ہو گئے تھے تاہم وہاں شناخت ہونے پر انھیں فوری طور پر جہاز سے اتار دیا
گیا۔
راؤ انوار کو کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی
مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد اس حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی
سفارش پر آئی جی سندھ نے ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے
کی بھی تجویز دی تھی جس پر منگل کو عملدرآمد کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ کراچی میں اس سے قبل بھی ماورائے عدالت قتل
کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ
سالہ 146 افراد مبینہ طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 140 ہلاکتوں کے پولیس مقابلوں میں دعوے
کیے گئے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو