ابصار فاطمہ
بچوں کے ساتھ سینکڑوں بار
ہونے والی جنسی تشدد سے صرف نظر کر تے ہوئے صرف ایک کے سانحے کے بعد سے ملک میں
نظریات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ کسی کے لیے قصور وار حکومت ہے کسی کے لیے قانون ساز
اور قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ کسی کے خیال میں ساری غلطی صرف والدہ کی تھی۔ کسی
کو یہ بیرونی سازش لگتی ہے اور کسی کے خیال میں نازیبا و فحش مواد تک رسائی سب
مسائل کی جڑ ہے، کوئی مذہبی رہنماوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے،کوئی آزاد خیال طبقے
کو اور کسی کا خیال ہے کہ آگاہی کی کمی ہی بنیادی مسئلہ ہے۔ ہاں ایک بڑی تعداد کا
یہ ماننا بھی ہے کہ مرد ذات ہوتی ہی نا قابل اعتبار ہے اور مردوں میں تو کسی پہ
اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔
چونکہ میرا تعلق ایک ایسی فلاحی تنظیم سے ہے جو کہ بچوں کی جنسی
تشدد سے بچاو کے لیے کام کرتی ہے اور میں متعدد بار اس واقعے سے پہلے بھی اس مسئلے
پہ قلم اٹھا چکی ہوں۔ اور اسی لیے اس معاملے میں دو ہفتے سے خود کو روکا ہوا تھا۔
کیونکہ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ نا آخری تھا۔ اس کے بعد کئی واقعات ہوئے اور ایک ہی دن
میں ذہنوں سے محو بھی ہوگئے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بہت اہم وجہ کی جانب
ابھی تک کسی کی توجہ نہیں گئی۔
یقینا اوپر بیان ہوئے امکانات اہم ہیں اور جنسی تشدد میں ناصرف بچوں بلکہ عورتوں
اور مخنث افراد پہ بھی اثر انداز ہوتے ہیں مگر کیا آپ نے سوچا کہ یہ سب وجوہات
ہمارے معاشرے میں کیوں جڑیں بنا رہی ہیں؟ کیا ان سب واقعات میں کوئی ایک یکسانیت
ہے؟ اگر غور کریں تو یقینا ہے۔ بچوں سے لے کر مخنث افراد تک سب سے بڑی یکسانیت ہے
متاثرہ شخص کا معاشرے میں کمزور ہونا۔
ایک ہندوستانی اسٹینڈ اپ کامیڈین کی بات کہنے کو مزاح تھی مگر بہت
ٹو دی پوائنٹ تھی بقول اس کے کہ اگر کوئی با اثر سیاسی رہنما جوان خاتون رات کو
اکیلی برہنہ بھی سڑکوں پہ نکل جائے تو کوئی اسے چھونے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اس کے
ساتھ کسی قسم کی زیادتی کرنا تو دور کی بات ہے۔
غور کیجیے تو وہ کامیڈین بہت اہم بات کر گیا۔ ہم جانتے بوجھتے اس
بات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ صرف عورتیں اور بچیاں نہیں بلکہ ہر کمزور انسان جنسی
تشدد کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ مرد ہو، بچہ ہو، بوڑھا ہو یا مخنث۔
پھر یہ دیکھیے کہ ان میں سے کون کون سا طبقہ کن کن بنیادوں پہ کمزور ہوتا ہے۔ ایک
تو جسمانی کمزوری ہے جس پہ سب فورا ہاں میں ہاں بھی ملائیں گے۔ کیونکہ اس منطق کی
بنیاد پہ مردوں کو مورد الزام ٹہرانا آسان ہے اور پچھلے بہت سے نظریات کی تصدیق
ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ مگر صرف یہ وجہ ہوتی تو متاثرہ افراد میں مرد نظر نہ آتے اور
مجرموں کی فہرست میں عورتیں نہ ہوتیں۔
دوسری وجہ ہوتی ہے کسی قسم کی جذباتی کمزوری۔ جیسا کہ بلیک میلر
کرتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی کسی غلطی کا فائدہ اٹھا کر اس سے مالی یا جسمانی فائدہ
اٹھاتے ہیں۔
لیکن ایک اور وجہ ہے جو باقی تمام مسائل کو جنم دیتی ہے جو براہ
راست یا کسی نہ کسی حوالے سے ردعمل کے طور پہ جنسی تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ وہ ہے
غربت۔
ایک ایسا نظام جہاں تمام آسائشیں دو فیصد کے قبضے میں ہوں اور باقی تمام
اکثریت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر صرف جینے کی کوشش میں ہو وہاں جو نہ ہو وہ کم ہے۔
ایک حقیقت یہ کہ جنسی تشدد کا شکار کوئی بھی ہوسکتا ہے مگر اس سے بڑی حقیقت یہ کہ
متاثرین میں عموما غریب اور دیہی علاقے کے بچے اور خواتین شامل ہوتی ہیں۔ اور یہ
فرق چھوٹا موٹا نہیں ہے تقریبا 80 فیصد متاثرین کا تعلق دیہی غریب گھرانوں سے ہوتا
ہے۔
ہمارا نظریہ عجیب ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بھوکے کے ہاتھ میں کتاب
دے دیں گے تو معاشرہ سدھر جائے گا۔ ہم غریب کے پاس جاکر اسے غیرت دلاتے ہیں کہ شرم
نہیں آتی گھر کی عورت کو نامحرموں میں بھیجتے ہو، یا گھر کے معصوم بچوں سے کام
کراتے ہو۔ ایک طرف ان پہ آگاہی کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں سرکاری اسکول ہیں تو ان
میں اساتذہ نہیں۔ اسکول اور اساتذہ ہیں تو بچے کے تن پہ کپڑا اور پیر میں جوتا
نہیں برہنہ بچہ اپنے لباس کی کوشش کرے گا یا ننگ دھڑنگ وجود کتابوں کے پیچھے
چھپائے گا؟ اس عورت کو اور اس بچے کو کمانے کے لیے گھر سے نکلنا ہے چاہے آپ اسے
ہزار طعنے دے دیں۔ 4 سال سے اٹھارہ سال تک کے یہ مزدور بچے جن میں سے شاید آپ کو
ایک بھی ایسا نہ ملے جسے کسی جیب بھرے بالغ نے اپنی جنسی تسکین کے لیے استعمال نہ
کیا ہو۔ یہ نا صرف سستا مزدور ہوتے ہیں بلکہ “پیڈ سیکس” کے لیے بھی سستے پڑتے ہیں۔
پولیس تک ایسا کوئی کیس پہنچتا ہے تو مجرم کو پکڑنے کی بجائے وہ کہہ دیتے ہیں بچہ
ہی عادی ہے۔ یہ بچے صرف جنسی تشدد کا شکار نہیں ہوتے بلکہ کبھی زمیں دار انہیں
اپنے کتوں کے سامنے ڈال دیتا ہے، کبھی استاد وحشیانہ تشدد کرتا ہے، کبھی سڑک پہ
کسی بھاری گاڑی کے نیچے آکر کچل جاتے ہیں، کبھی گڑھے میں گر جاتے ہیں نہر میں بہہ
جاتے ہیں۔ یہ کوئی کبھی کبھار کی بات نہیں ایک دفعہ اخبار اٹھا کے دیکھیے دیہی
علاقوں کے یہ روز کے مسائل ہیں۔ اور ان سب سے کچھ نا ہوا تو غذا کی کمی سے مر جاتے
ہیں۔
پچھلے دنوں ایک مجلس میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ ملک خاص کر سندھ
میں ہونے والی غذائی قلت پہ بات ہوئی۔ سوال کیا گیا کہ غذائی قلت پہ قابو پانے کے
لیےکیا کرنا چاہیے۔ مشوروں کی نوعیت کچھ یوں تھی کہ گاوں میں گھروں میں جگہ زیادہ
ہوتی ہے اس لیے گھروں میں سبزیاں اگانی چاہیں۔ گوشت کی جگہ دالیں استعمال کرنی
چاہیں کیونکہ ان میں بھی وافر مقدار میں پروٹین ہوتا ہے۔ دودھ پینا چاہیےکیونکہ
گاوں کے ہر گھر میں تو دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ بتایا گیا
کہ اصل میں ان میں آگہی کی کمی ہے اس لیے وہ صحیح غذا استعمال نہیں کرتے۔ تو یہ
آگہی کی کمی تو شہروں میں بھی ہے جس گاوں میں غریب کا بچہ مرتا ہے اسی گاوں کی
وڈیرن کو بھی آگہی کی کمی ہے پھر اس کے بچے غذائی قلت سے کیوں نہیں مرتے۔ وہ کیوں
زچگی کے دوران پیچیدگی کا شکار نہیں ہوتی۔ وڈیرے کے بیٹے کو کوئی اپنی ہوس کا
نشانہ کیوں نہیں بناتا۔
آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ یہ مشورے کس حد تک قابل عمل ہیں۔ گھر میں
سبزیاں اگانے کے لیے بڑی جگہ نہیں ایک فارغ انسان چاہیے جو ان سبزیوں کو وقت دے
سکتے۔ وہ عورت جو فجر کے وقت اٹھ کر پہلے سب کے ناشتے کا بندوبست کر کے فصل پہ
جاتی ہے۔ دوپہر میں صرف اتنی دیر کے لیے واپس آتی ہے کہ دوبارہ کھانا پکا سکے اور
بچوں کو دیکھ سکے۔ اور پھر واپس اس فصل پہ چلی جاتی ہے جس پہ محنت کرنے کے اسے چند
ٹکے ملتے ہیں۔ گھر آکر پھر کاموں میں مصروف ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اندھیرا پھیل
جائے اور پورا دن “لوڈ شیڈنگ آوور” کی وجہ سے رات بھی اندھیرے میں ڈوبی ہوتی
ہے۔ جس فصل پہ وہ اور اس کے گھر والے اپنا خون پسینا ایک کرتے ہیں اس سے اگنے والی
غذا کسی اور کے گوداموں کی زینت بنتی ہے اس کو اور اس کے بچوں کو صرف بھوک ملتی
ہے۔ کوئی دال ملے گی تو پروٹین ملے گا۔ وہ جو دودھ ہوتا ہے وہ صرف بیچنے کے لیے
ہوتا ہے یا گھر کے مردوں کے لیے۔ جس ماں کو ایک بچہ پیدا کرنا ہوتا ہے اس کی اس
دودھ تک رسائی نہیں ہوتی۔ اگر ایک شخص اپنی گھر کے احاطے میں ہی اپنی غذا کا
بندوبست کرسکتا ہو تو اسے کس پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ زمیں دار کی چاکری کرے اور
جواب میں چند ٹکے پائے؟
غذائی قلت کا اس کے علاوہ، کہ بھوکے کی رسائی غذا تک ہونی چاہیے، کوئی اور حل منطقی
کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟
شادی، بچپنے کی شادی، عزت کے نام پہ قتل، جنسی تشدد اور ان سب میں
ہونے والا لین دین اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری خود ساختہ اخلاقیات کے پیچھے ہر جگہ
صرف “مال” ہے۔ ایک لڑکا اور لڑکی کارو اور کاری قرار دیے جاتے تو لڑکی کے قتل کے
بعد لڑکے سے جرمانہ لے لیا جاتا ہے اور اس کاگناہ دھل جاتا ہے۔ اگر جبرا زنا کیا
ہو تو کچھ من گندم گناہ دھلنے میں کار آمد ہوتے ہیں۔ وہ سرمایہ دار جو اپنا ایمان
بیچ کر عزت دار بنے ہوتے ہیں غریب عورت کے جسم بیچنے پہ لعن طعن کرتے ہیں۔ منطق یہ
پیش کی جاتی ہے کہ باحیا عورت بھوکی مر جائے گی مگر عزت کا سودا نہیں کرے گی۔ مجھے
صرف یہ بتایئے کہ باحیا عورت کو بھوکا رہنے پہ مجبور کیا ہی کیوں گیا؟ کیوں
اسے بھائی جتنی تعلیم نہ دلوائی گئی؟ کیوں اتنا اعتماد نہیں دیا گیا کہ وہ باہر
نکل کے اپنی صلاحیت کی بنیاد پہ کچھ کما سکے؟ کیوں مدد کرنے والے کو بدلے میں اس
کا جسم چاہیے؟ اور آپ کیا جانتے نہیں کہ غریب مرد کو بھی اولاد کا پیٹ بھرنے کے
لیے جسم بیچنا پڑتا ہے؟ وہ چاہے گردے کی شکل میں ہو یا عورت کی مانند “پیڈ سیکس”
ہو۔ مرد کی اس تکلیف کو تکلیف گردانا ہی نہیں جاتا۔ اسی لیے اس کی طرف سے بالکل
آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں کہ اگر نشاندہی کی گئی تو اس مسئلے کا حل دینا پڑے گا۔
کیوں ایک بے روزگار کو اپنا آپ شعلوں کی نظر کرنا پڑتا ہے؟ اور تصاویر کھینچنے
والے، سوشل میڈیا پہ کمپین چلانے والے لاکھوں ہوتے ہیں مگر اسے کوئی ایسا روزگار
دینے والا نہیں ہوتا جس سے وہ ایک عزت دار زندگی گزار سکے۔
ویسے بھی عزت بیچنے پہ صرف پہلی بار تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لیے دیہی
علاقوں میں روز بچیاں نکاح کے نام پہ بیچی جاتی ہیں۔ مرد سے کوئی گناہ ہو عوض میں
خاندان کی کوئی بھی بچی کام آجاتی ہے۔ اور دینے والوں کو کوئی احساس شرمندگی نہیں۔
ہاں اگر وہ لڑکی اپنے حق کے لیے گھر سے نکل آئے اس شوہر سے نجات حاصل کرنے کی کوشش
کرے جو 12 سال کی بچی کو 60 سال کی عمر میں میں اپنی مردانگی دکھانے کے لیے خرید
کے لایا تو بد کردار وہی لڑکی کہلائے گی۔ کیونکہ اس کا بیچنا تو روایت بن چکا ہے
مگر اس کا اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا نئی بات ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں صرف “امیر” انسان ہے باقی سب اس کا سرمایہ ہیں۔ اور اس کے لیے
مزید سرمایہ کمانے کی فیکٹری کے پرزے۔ اور اس طبقاتی فرق نے استحصال کا ایک ایسا
چکر شروع کردیا ہے جہاں مقابلہ ہی استحصال کرنے کا ہے۔ یہ ثابت کرنے کا کہ کیونکہ
میں زیادہ طاقت ور ہوں اس لیے میں زیادہ استحصال کر سکتا ہوں۔ اسی لیے جسے جب موقع
ملتا ہے وہ خود سے کمزور کا جنسی، جذباتی اور مالی استحصال بڑی خوش اسلوبی سے کرتا
ہے۔
بشکریہ ہم سب