پپو کے قاتل کی سرعام پھانسی کے بعد بھی بچے ریپ ہوتے رہے تھے


محمد شعیب
زینب کے بہیمانہ ریپ اور قتل کے بعد متعدد سماجی، سیاسی اور مذہبی حلقے سرعام پھانسیوں، سنگساری اورہاتھ قلم کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، چوہدری شجاعت اور رحمان ملک جیسے سرکردہ سیاسی رہنما بھی سرعام پھانسیوں کی مشروط یا غیر مشروط حمایت کر چکے ہیں۔ تشویش ناک امر خیبر پختونخوا اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں منظور کی جانے والی قراردادیں ہیں جن میں زینب کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سرعام پھانسیوں، سنگساری، کوڑے لگانے اور ہاتھ قلم کرنے جیسی غیر انسانی سزاؤں کی اس بڑے پیمانے پر حمایت پاکستان میں انصاف اورانسانی حقوق سے متعلق معاشرتی رویوں کی بھیانک عکاسی کے لئے کافی ہے۔ سیاسی جماعتوں، کالم نگاروں اور عوامی حلقوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ ریپ اور قتل کے مجرموں کو الٹا لٹکائے جانے کے مطالبات کو زینب یا ایسے ہی بچوں کے ساتھ انصاف سمجھنا ایک سنگین غلطی ہے۔ قصور واقعے سے قبل اے پی ایس پشاور کے بعد بھی ایسے ہی مطالبات دیکھنے کو ملے تھے اور بدقسمتی سے غالباً اسی دباؤ کے تحت دسمبر 2014 میں سزائے موت پر عائد غیر رسمی پابندی اٹھا لی گئی تھی اور تب سے اب تک 487 افراد کی پھانسیوں پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے۔
سرعام پھانسیوں یا سزائے موت سے راقم کے اصولی اختلاف کے باوجود اس مطالبے کی بنیاد بننے والے عوامل فوری تجزیے اور مباحثے کے متقاضی ہیں۔ خاص کر جب سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ میں اس ضمن میں ایک قرار داد منظور ہو چکی ہے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا عوامل ہیں جو ایسے مطالبات کا باعث بن رہے ہیں اور ایسی غیر انسانی سزاوں کے حق میں دیے جانے والے دلائل میں کتنا وزن ہے۔ معروف کالم نگار انصار عباسی کے ایک حالیہ کالم اور شہباز شریف اور چوہدری شجاعت سمیت متعدد سیاسی شخصیات کی جانب سے سرعام پھانسی کے مطالبے کے پیچھے موجود استدلال کو رد کیے بغیر ممکن نہیں کہ سرعام سزائے موت کے خلاف مقدمہ قائم کیا جا سکے۔ زینب کے قاتلوں کے لئے سرعام پھانسی کے مطالبے کے لئے بالخصوص اور سزائے موت کے حق میں بالعموم دیے جانے والے دلائل میں سے تین فوری توجہ کے مستحق ہیں۔
1۔ عدالت عالیہ سمیت متعدد حلقوں کی جانب سے یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ اگر ماضی میں ہونے والے ایسے واقعات پر سزا دی جاتی اور درست تفتیش کی جاتی تو زینب کے ساتھ یہ ظلم نہ ہوتا۔ یہ نکتہ اپنی جگہ یقیناً درست ہے اور اس کی حمایت کی جانی چاہیے اور فوری اور موثر تفتیش اور مناسب سزا کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں جنسی جرائم کے مقدمات میں سزا نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا اخبار میں چھپنے والی ایک حالیہ خبر کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران دس برس سے کم عمر کے بچوں کے خلاف جرائم کے 1064 واقعات رپورٹ ہوئے اور محض 11 ملزمان کو سزا سنائی گئی۔
یاد رہے اس ضمن میں ایک بڑا مسئلہ ایسے جرائم کا رپورٹ نہ کیا جانا ہے، دوسرا بڑا مسئلہ تفتیشی اداروں کی جانب سے ایسے جرائم کی رپورٹ درج کرنے اور تفتیش کرنے سےغفلت ہے، تیسرا بڑا مسئلہ تفتیشی اداروں کی ایسے جرائم کی تفتیش کے لئے نا اہلیت کا ہے اور پھر چوتھا مسئلہ تفتیش کے بعد ملزمان کے خلاف عدالت میں جرم ثابت کرنے کا مشکل عمل ہے۔ یہ تمام مسائل مختیاراں مائی کے ساتھ اجتماعی ریپ اور قصور چائلڈ پورنوگرافی سکینڈل کی تفتیش اور عدالتی کارروائی سے واضح ہیں۔ یہ مسائل مل کر جنسی مجرمان کو تحفظ فراہم کیے رکھتے ہیں۔ تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرعام پھانسی یا ریپ کے لئے موت کی سزا ان مسائل کا حل نہیں۔ سرعام پھانسی یا سزائے موت بھی اسی صورت میں دے جا سکتی ہے اگر مجرم گرفتار ہو اور اس پر جرم ثابت بھی ہو جائے۔ مجرم کی گرفتاری اور سزا کے لئے تفتیشی نظام بہتر بنانے، عدالتی اصلاحات کرنے اور ریپ جیسے جرائم ثابت کرنے کے لئے شواہد کا بہتر معیار اور نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے نا کہ سزائیں سخت کرنے کی۔ اسی کی دہائی میں ریپ اور دیگر اخلاقی جرائم پر سرعام سزائیں دی گئیں لیکن اس کے باوجود ریپ اور جنسی جرائم بدستور ہوتے رہے ہیں۔ اور کئی مقدمات آج ہی کی طرح حل طلب بھی رہے۔
2۔ ایک دوسری دلیل جو سرعام پھانسیوں کے حق میں دی گئی وہ ایسی سزاؤں کا ”عبرتناک“ ہونا ہے۔ اس ضمن میں چوہدری شجاعت اور انصارعباسی صاحب کی جانب سے ضیاء دور میں پپو مرڈر کیس کا حوالہ دیا گیا۔ ان اصحاب کے مطابق سابق فوجی آمر ضیاءالحق کے زمانے میں پپو مرڈر کیس میں ایک بچے کے ساتھ ریپ اور اس کے قتل پر سرعام پھانسی دی گئی اور اس کے بعد قریب ایک دہائی تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات نہیں ہوئے۔ انصاف عباسی صاحب کا یہ دعوی اپنی نفی آپ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اعدادوشمار یہ واضح کرتے ہیں کہ اسی کی دہائی اور نوے کی دہائی میں بچوں کے ساتھ ریپ، جنسی حملوں اور ان کے قتل کے واقعات اس سزا کے باوجود جاری رہے۔ صرف ایچ آر سی پی کی آرکائیوز میں محفوظ اخباری تراشوں سے یہ واضح ہے کہ 1983 سے 1992 کے دوران کم سے کم 11 بچیاں ریپ ہوئیں، اور یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور ایچ آر سی پی کی آرکائیو میں محفوظ ہیں (ان خبروں کی نقل راقم کے پاس موجود ہے)، اس زمانے میں پاکستا ن میں نہ این جی اوز موجود تھیں جو یہ اعدادوشمار جمع کرتیں اور نہ ذرائع ابلاغ اس قدر آزاد اور برق رفتار تھے کہ اطلاعات کی فوری ترسیل ممکن ہوتی۔ ایران کی مثال ایک اور اہم مثال ہے جو انصار عباسی اور ان کے ہم خیال افراد کے دعوے کو باآسانی رد کرنے کے لئے کافی ہے۔
ایران آج بھی سرعام پھانسیاں دے رہا ہے تاہم وہاں بڑے پیمانے پر بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تہران کی گلیوں میں ہر ماہ سو سے ڈیڑھ سو بچے مارے جاتے ہیں جن میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جو جنسی جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق ایران میں 21 فیصد بے گھر بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے ساتھ ریپ اور جنسی تشدد اس قدر عام ہے کہ اسے بے گھر بچوں میں ایڈز کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ ایران کی مثال یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ سرعام سزائیں جرائم کی شرح کم کرنے کے لئے موثر نہیں۔ سرعام سزائیں معاشرے میں جرائم کی کمی کا نہیں بلکہ تشدد کے فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ اعدادوشمار سے ہٹ کر محض یہ دیکھنا ہی کافی ہے کہ ایران اور سعودی عرب دنیا کے ان ممالک میں شمارکیے جاتے ہیں جہاں سزائے موت کا استعمال باقی تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ اگر سزائے موت اور سرعام سزائیں موثر ہوتیں تو ان ممالک کو اس بڑی تعداد میں ہر برس سزائے موت پر عملدرآمد نہ کرنا پڑتا۔
3۔ تیسری دلیل سرعام سزاؤں کے اسلامی ہونے کی ہے۔ عمومی تاثر اور غالب فقہی رحجان یہی ہے کہ سرعام سزائیں اسلام کی جانب سے مقرر کردہ ہیں اور ان کا نفاذ اسلامی حکومت اور ریاست کی ذمہ دار ہیں۔ تاہم اس حوالے سے کوئی بھی بحث یقیناً تب تک نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی جب تک اختلاف کرنے والے فریق مذہب، مذہب اور معاشرت میں فرق، ریاست اور قانون سازی میں مذہب کے کردار اور فقہ اور مذہب کی حیثیت، مذہب کی قطعیت یا حتمیت اور اس کے مسلسل ارتقاء پذیر ہونے جیسے معاملات پر اتفاق رائے نہ کر لیں۔ اس ضمن میں تاہم اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ راقم کے خیال میں اسلام معاف کرنے کو انتقام لینے سے بہتر قرار دیتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ شریعت نے انتقام لینے کا عمل ریاست کے سپرد کیا ہے نا کہ لواحقین کے، گویا ریاست کو یہ اختیار ہے کہ وہ سزا سے متعلق یہ فیصلے کر سکتی ہے کہ آیا یہ مناسب ہے یا نہیں۔
اس ضمن میں خالد ابوالفضل، رابعہ حارث اور طارق رمضان کے افکار کا مطالعہ بھی اہم ہے جو اپنے اپنے انداز میں اسلام میں سزائے موت کی لازمی حیثیت کو درست نہیں سمجھتے۔ عرب میثاق برائے انسانی حقوق بھی اس موضوع پر خاطر خواہ روشنی ڈالتا ہے۔ اسلام اگرچہ یہ میثاق نہایت سنگین جرائم کی صورت میں ریاست کو سزائے موت کی اجازت دیتا ہے تاہم ساتھ ہی کسی بھی ایسی روش کو ممنوع قرار دیتا ہے جو انسانی تذلیل کا باعث بنے۔ اور 1994 میں سپریم کورٹ آف پاکستان سرعام پھانسیوں کو انسانی عزت و احترام کے منافی قرار دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ رائے Universal Declaration of Human Rights in Islam پر مبنی ہے۔ یہ تمام حوالے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آج کی مسلم فکر اس حوالےسے مزید انسان دوست رویہ اپنانے کو تیار ہے اور خاص کر ایک ایسی صورت حال میں جہاں سرعام سزائیں جنسی اور دیگر سنگین جرائم روکنے میں موثر ثابت نہیں ہو رہیں ان سزاؤں محض اس لئے نافذ کرنا کہ یہ چند کالم نگاروں اور سیاستدانوں کا مطالبہ ہے کسی بھی طور پر اسلام کے تصور انصاف سے مطابقت نہیں رکھتا جو معافی یا تصفیے کو انتقام سے برتر خیال کرتا ہے۔
جنسی جرائم بھی تمام دیگر سماجی جرائم کی طرح نفسیاتی، معاشرتی اور معاشی عوامل کی پیداوار ہیں اور یقیناً پکڑے نہ جانے کا یقین بہت سے لوگوں کو جرم کیے جانے پر مائل رکھتا ہے تاہم Sister Helen Projean کا یہ قول نہیں بھولنا چاہیے کہ
Deterrence comes from certainty of being caught not from severity of potential punishment
بشکریہ ہم سب