اگر کسی بچے کے ساتھ زینب جیسا واقعہ پیش آئے تو والدین کیا کریں؟

حمیرا کنول
قصور
تصویر کے کاپی رائٹ
قصور میں چھ سالہ زینب کے اغوا، ریپ اور قتل نے ایک بار پھر قصور سمیت ملک بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے مسئلے کو منظر عام پر لایا ہے۔
زینب سے پہلے انہی کی ہم عمر اسی علاقے کی مکین بچی اغوا کے بعد ریپ کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ وہ آج اپنے والدین کے پاس محفوظ تو ہے لیکن وہ اپنے والدین کو اپنی آپ بیتی بتانے کے قابل نہیں۔
ایک ماہ پہلے وہ گھر سے کوئی چیز لینے قریبی مارکیٹ گئی اور پھر لاپتہ ہو گئی۔
قصور کی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت بچوں کے اغوا اور ریپ کے 12 واقعات درج ہیں لیکن 200 سے زائد پولیس افسران پر مشتمل یہ ٹیم اب تک ایک سال سے زائد عرصے سے جاری نامعلوم شخص یا گروہ کی کارروائیوں کا پتہ لگانے میں ناکامی دیکھ رہی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ نہ صرف قانونی کارروائی پوری ہو بلکہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کا کہنا ہے کہ کسی بھی جرم کی مانند اس قسم کے واقعے میں بھی ایف آئی آر کا مضبوط ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے والدین کو کچھ فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر خدانخواستہ کسی کے بچے کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو وہ
پہلے 24 گھنٹوں کے اندر اندر مقامی سرکاری ہسپتال سے میڈیکل کروا کر رپورٹ لے لیں کیونکہ 24 گھنٹوں کے بعد کروائی جانے والی رپورٹ پوزیٹیو نہیں آئے گی اور یہ ثابت نہیں ہو سکے گا کہ بچے یا بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یا نہیں۔ عدالت میڈیکل رپورٹ کو دیکھتی ہے۔
متاثرہ بچے یا بچی نے جو کپڑے پہن رکھے ہوں وہ سنھبال کر رکھے جائیں کیونکہ یہ ثبوت ہوتا ہے جو تفتیش میں کام آتا ہے۔
جائے وقوعہ سے جو بھی شواہد ملیں انھیں بھی محفوظ کیا جائے ہو سکتا ہے وہاں مجرم کوئی ایسی چیز چھوڑ گیا ہو جو تفتیشں میں مدد دے سکے۔
اوپر بتائی گئی تمام معلومات کو ایف آئی آر میں ضرور شامل کیا جائے کیونکہ اس میں جتنے شواہد ہوں گے کیس اتنا ہی مضبوط ہوگا۔
قصور
زینب کے قتل کے بعد قصور میں مظاہرے شروع ہو گئے جن میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں

سلیبس اور اساتذہ کا کردار
لیکن کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو ایسا شعور دینے کے لیے کوئی اقدامات ہیں کہ انھیں کیسے خود کو بچانا ہے؟
دارالحکومت اسلام آباد کے ایک سکول میں پرنسپل نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ نہ تو سلیبس میں ایسی کوئی چیز شامل ہے اور نہ ہی اساتذہ کو ایسی کوئی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ بچوں کو اس حوالے سے کچھ بتائیں اور کیسے بتائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں تو چند ایک این جی اوز کچھ سکولوں میں بچیوں کو بلوغت اور ماہواری کے حوالے سے کچھ گائیڈ لائنز دینے آتی ہیں لیکن اس معاملے پر کبھی کسی این جی او نے بھی ہمارے سکولوں کا رخ نہیں کیا۔
اس تحریر کے اختتام تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق زینب کے ریپ اور قتل کا نوٹس نہ صرف ملک کے آرمی چیف نے لیا بلکہ اب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس کا نوٹس لے لیا ہے۔
لیکن سوال پھر یہی اٹھتا ہے کہ کیا نوٹس لینے سے اور میڈیا پر چند دن کے لیے اٹھنے والے شور شرابے سے آگے بڑھ پائے گی؟
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ نوٹسز اس وقت لے لیے جاتے جب سپریم کورٹ سے کچھ ہی کلومیٹر دوری پر چند برس قبل ایک نوعمر طالبہ کو سرکاری سکول کے چوکیدار نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔ کاش یہ نوٹسز زینب کی گمشدگی کے روز ہی لے لیے جاتے۔

بشکریہ بی بی سی اردو