قصور زینب کے والدین کا انصاف کا مطالبہ، مظاہروں میں دو ہلاک


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں مبینہ طور پر کم سن لڑکی زینب کے ریپ اور قتل پر سعودی عرب سے پاکستان واپس پہنچنے پر زینب کے والدین نے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
زینب کی والدہ نے کہا کہ 'مجھے کچھ نہیں چاہیے صرف انصاف چاہیے۔‘ ان کے والد نے کہا کہ ’زینب کی تدفین تب تک نہیں کریں گے جب تک اس واقعے کا مجرم پکڑا نہیں جائے گا‘۔
سات سالہ زینب جمعرات سے لاپتہ تھیں اور ان کی جنسی زیادتی کا شکار لاش منگل کو کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
زینب کے قتل کے بعد قصور میں بدھ کو پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے جس کے دوران فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہھی ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے ڈی سی آفس سمیت متعدد سرکاری عمارتوں پر دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی۔
قصور پولیس کے ڈی پی او ذوالفقار احمد نے بی بی سی کی نامہ نگار حنا سعید سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈی سی او دفتر پر دھاوا بولنے والا ہجوم انتہائی مشتعل تھا۔
انھوں نے تصدیق کی کہ مظاہروں میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ڈی سی او دفتر پر ہونے والی ہلاکتیں افسوسناک ہیں تاہم دفتر پر دھاوا بولنے والا ہجوم انتہائی مشتعل تھا۔


یہ بھی پڑھیے

اس کے علاوہ کیس کی تفتیش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اب تک 13 سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لی ہے تاہم ابھی تک قاتل کی نشاندہی نہیں ہو سکی ہے۔
ذوالفقار احمد نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ ان واقعات کے سلسلے میں پولیس کی جانب سے کچھ نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو پنجاب فورینزک لیب میں بھجوایا ہوا ہے تاکہ اس سے کوئی شواہد حاصل کیے جا سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل دو سال سے جاری ایسے واقعات کے سلسلے میں پولیس کے پاس کوئی شواہد نہیں تھے۔ تاہم پولیس نے مختلف کارروائیوں میں 67 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا ہے اور تقریباً 5000 افراد سے تفتیش کی جا چکی ہے۔
لائنڈی پی او ذوالفقار احمد
ڈی سی او دفتر پر ہونے والی ہلاکتیں افسوسناک ہیں تاہم دفتر پر دھاوا بولنے والا ہجوم انتہائی مشتعل تھا
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنئظم ساحل کے سینیئر پروگرام افسر ممتاز گوہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ریپ کے کیسز میں مجرم کا پتا لگانے میں جہاں پولیس کی انتظامی کارروائی میں کمزوریاں ہیں وہیں کچھ کوتاہی والدین کی جانب سے بھی ہو جاتی ہے جس کی بڑی وجہ لاعلمی اور معاشرے میں آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ کسی کے بچے کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو وہ
1. پہلے 24 گھنٹوں کے اندر اندر مقامی سرکاری ہسپتال سے میڈیکل کروا کر رپورٹ لے لیں کیونکہ 24 گھنٹوں کے بعد کروائی جانے والی رپورٹ پوزیٹو نہیں آئے گی تو یہ ثابت نہیں ہو سکے گا کہ بچے یا بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ عدالت میڈیکل رپورٹ کو دیکھتی ہے۔
2. متاثرہ بچے یا بچی نے جو کپڑے پہن رکھے ہوں وہ سنبھال کر رکھے جائیں کیونکہ یہ ثبوت ہوتا ہے جو تفتیش میں کام آتا ہے۔
3. جائے وقوعہ سے جو بھی شواہد ملیں انھیں بھی محفوظ کیا جائے ہو سکتا ہے وہاں مجرم کوئی ایسی چیز چھوڑ گیا ہو جو تفتیشں میں مدد دے سکے۔
4. اوپر بتائی گئی تمام معلومات کو ایف آئی آر میں ضرور شامل کیا جائے کیونکہ اس میں جتنے شواہد ہوں گے کیس اتنا ہی مضبوط ہوگا۔
قصور
چھ سے زائد ایسے کیسز
قصور کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت مرکزی شہر کے مختلف تھانوں میں چھ سے زائد مقدمات ایسے ہیں جن میں بچوں کو اغوا کے بعد قتل کر کے ان کی لاشوں کو اسی علاقے میں پھینک دیا گیا۔
زینب اور دیگر بچوں کے مقدمات کی تفتیش سے منسلک پولیس افسر افتخار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ دو سو سے زیادہ افسران پر مشتمل جے آئی ٹی چھ ماہ سے اسی قسم کے کیسز کو دیکھ رہی ہے لیکن ابھی تک بچوں کا قاتل ڈھونڈنے میں مشکلات اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
'ابھی تک گمان یہی ہے کہ ایک ہی بندہ ہے جو بچوں کو راستے میں سے اٹھاتا ہے اور ان کی ڈیڈ باڈی کو پھینک دیتا ہے اور ان کیسز میں زیادہ بچے ہیں۔'
سب انسپکٹر افتخار احمد نے بتایا کہ 2016 کے بعد سے اب تک وقفے وقفے سے ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
زینب کیس
سب انسپیکٹر افتخار احمد کا کہنا ہے کہ زینب کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد نامعلوم شخص نے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔
زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔
ان کے چچا نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ 'ساتھ ہی خالہ کا گھر ہے زینب بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لیے گئی تھی۔ بھرا بازار ہے سب اپنے ہی ہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کہاں گئی۔'
'جمعرات کو بچی غائب ہوئی اور جمعے کو ہم نے 12 بجے صبح ثبوت دیے لیکن پانچ دن بچی زندہ رہی لیکن ان سے کچھ نہیں ہو سکا۔ جگہ جگہ کارروائی کی اور گاڑیاں بھگاتے ہیں لیکن پلے کچھ نہیں ہے۔'
بشکریہ بی بی سی اردو