فرنود عالم
برادر مکرم رضا شاہ جیلانی نے رات ایک نکتے کی جانب متوجہ کیا۔ جمہوریت والا سلسلہ چلتا رہے گا، جیلانی صاحب کی بات پہ ذرا گرہ لگالینے دیجئے۔
تبلیغی اصلاحی تحریک دعوت اسلامی کے امیرمحترم مولانا الیاس عطار قادری دام اقبالہم کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ نہیں معلوم کہ آپ کس حیثیت میں جانتے ہیں مگر میری نظر میں ان کا وجودِ پاک امتِ مسلمہ کے تابناک مستقبل کا آئینہ دار ہے۔ امت کے زوال کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک اجتہاد سے بے التفاتی اور دوسرا سائنسی علوم سے فرار۔ مولانا نے نہ صرف اجتہاد کا بند دروازہ کھڑکیوں سمیت واپس کھول دیا ہے بلکہ ایجاد ودریافت کے مردہ گھوڑوں میں پھر سے روح پھونک دی ہے۔ اجتہاد کے باب میں اگر دیکھا جائے تو حال ہی میں مولانا نے امت مسلمہ کو بتایا کہ ایک نمازی کے آگے سے گزرنے کا جائز طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی فقہی الجھن تھی جس کی سلجھن میں صدیوں کی تحقیق ناکام رہی ہے۔
اسی طرح گزشتہ برس امت مسلمہ پہ یہ راز مولانا نے ہی کھولا کہ برتن میں بچے ہوئے سالن کو انگلیوں سے چاٹنے کے کیا فوائد ہو سکتے ہیں۔ فوائد تو خیر حکمائے طب نے پہلے بھی کچھ بتا دیئے تھے، مگر انگلی چاٹنے اور چوسنے کا شرعی و اخلاقی طریقہ کیا ہوسکتا ہے، یہ مولانا سے پہلے کوئی بھی مجتہد زیر بحث نہیں لایا۔ مولانا نے ہی ہمیں بتایا کہ پیالی میں بچ رہنے والے چائے کے قطرے اگر بال اور داڑھی پہ مل لیئے جائیں تو زبیدہ آپا کو کتنے واٹ کا جھٹکا دیا جا سکتا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ ہوتے تو مولانا کو شرعی طریقے سے انگلیاں چاٹتا دیکھ کر ضرور حوصلہ پاتے، اور حضرت ابولکلام آزاد ہوتے تو پیمانے میں بچ رہنے والے قطروں کے ساتھ اس شرعی برتاؤ پہ ناگواری کا اظہار فرماتے۔
ایجاد ودریافت کی اگر بات کی جائے تو مولانا کی یوں تو کئی ایجادات ہیں مگر دو کا ذکر ہم مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کئے دیتے ہیں۔ مولانا نے غالبا دو برس قبل قفلِ مدینہ کے نام سے ایک چشمہ ایجاد کیا جس کے پہننے سے ایک مسلمان بدنظری سے بچ سکتا ہے۔ چشموں کے معاملے میں اضافی تجربات یا تو شاہ رخ خان کی فلم’میں ہوں نا‘ میں ہوئے تھے یا پھر فیضانِ مدینہ میں ہوئے۔ فرق یہ ہے کہ شاہ رخ خان والے چشمے کے وائیپر چشمے کو کسی تھوک آور خطیب کے تھوک سے بچا سکتے ہیں جبکہ قفل مدینہ نام کے چشمے آپ کو دنیا و آخرت کی تباہی سے بچا سکتے ہیں۔
مولانا کی ایک لازوال ایجاد کا تذکرہ میں باقاعدہ کرنا چاہتا ہوں کہ اسی کا تعلق موضوع سے بھی ہے۔ مولانا کا ایجاد کردہ ”مدنی تکیہ“ تاریخِ اسلامی کی درخشندہ ایجاد ہے۔ اس تکیے پہ تکیہ کر کے اگر سارا عالم اسلام دجال کے ظہور تک سو بھی جائے تو حضرت مہدی کو ناگوار نہیں گزرے گا۔ یہ تکیہ کیوں تخلیق ہوا؟ فرماتے ہیں کہ جب کبھی موٹر سائیکل پہ دو افراد سوار ہوں تو یہ تکیہ احتیاطا بیچ میں رکھ لیا کریں تاکہ دونوں سواروں کے بیچ شیطان کی جگہ نہ بن سکے۔ سبحان اللہ۔ آپ مسلمانوں کا علمی انحطاط تو دیکھیئے کہ موٹر سائیکل کو ایجاد ہوئے صدیاں گزر گئیں مگر کبھی کسی شیخِ ربانی اور پیرِ الہامی کو خیال نہ آیا کہ کس قدر غیر شرعی اور غیر اخلاقی سواری مسلمانوں پر مسلط کر دی گئی ہے۔ یہود و نصاری سیٹ کے درمیان میں کوئی حدِ فاصل بھی قائم کر سکتے تھے، مگر انہوں نے سیٹ کھلی چھوڑ دی کہ مسلمان فحاشی اور عریانی میں مبتلا ہوکر اپنی عالمگیر ذمہ داریوں سے غافل ہوجائیں۔
دیکھا جائے تو یہ موٹر سائیکل ہی تھی کہ جس کے ذریعے یہود وہنود نے مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کے جراثیم داخل کیئے۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے موٹر سائیکل پہ پیچھے سوار مرد کو آڑا بٹھانے کے بجائے خواتین کو آڑا بٹھایا۔ اب خدا نخواستہ خواتین سے انہیں ایسا کیا خوف لاحق تھا۔ وہ تو سراسر بے ضرر جنس ہے۔ اپنے پیچھے مرد کو بالکل سیدھا بٹھا کر اس امت نے نہ صرف یہ کہ ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کی بلکہ مسلم نوجوانوں کو مردانہ کمزوری سے دوچار کرکے انقلابی جذبات سے بے بہرہ کردیا۔ یقین نہ آئے تو پاکستان کی کسی بھی شاہراہ پہ چلتے ہوئے ہر دوسری دیوار پہ کسی بھی حکیم کے اشتہارات بغور پڑھ لیجیئے۔ اس پہلو پہ کبھی علمائے دین شرع متین نے غور کیا؟ یہ چنگاری تو بس حضرت مرشد عالی مقام کے ہی خاکستر میں تھی۔ منتظر ہوں کہ مولانا صاحب کے پردہ خیال سے ڈانسنگ کار کے قرار کے لئے کون سا نسخہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔
مولانا صاحب کی خدمات کا اعتراف ہوچکا، اب بر سرِ مطلب آجاتے ہیں۔ اس مدنی تکیے کا ایک فائدہ مجھ جیسے گنہگاروں کو ہوا۔ ہم پہلی بار یہ جان پائے کہ موٹر سائیکل کا کوئی شہوانی پہلو بھی ہوتا ہے۔ کم از کم میرے ذہنِ نارسا میں یہ خیال اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا۔ یقین نہ آئے تو میرے لنگوٹیے فہد احمد سے پوچھ لیجیئے جس کے ساتھ موٹر سائیکل پہ ایک عمر گزاردی۔ ایک میں ہی کیا، جب سے موٹر سائیکل ایجاد ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک شہسواروں نے کبھی اس سواری کے جنسیاتی پہلو پہ غور نہیں کیا ہوگا۔ سات براعظموں میں موجود کسی آبادی کا ذہن اگر اس جانب گیا ہے، تو وہ کراچی کی آبادی ہے کہ آخر طب و سائنس کا یہ مرکز وہیں قائم ہے۔
پھر اس آبادی کو جنسی بے راہ روی کی اس ناممکن شکل کی طرف اگر کسی چیز نے متوجہ کیا ہے تو وہ مولانا کا مدنی تکیہ ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے یہ مولانا نے کسی موجود برائی کی نشاندہی کی ہے یا پھر اس برائی کی طرف متوجہ کیا ہے جو انسان کے خیال میں اب تک ناممکن تھی؟ مولانا صاحب ہاتھ روک رہے ہیں یا پھر رغبت دلا رہے ہیں؟ یہ تکیہ ہوا کہ جنسیات کی اشتہاری مہم ہوئی؟ اگر چہ انسانی ذہن اب بھی یہ سوچ رہا ہے کہ بابا موٹر سائیکل پہ وہ سب ممکن کیسے ہوتا ہوگا جس کا گمان مولانا کو ہوا، لیکن انسانی ذہن مطمئن ضرور ہوگیا ہے کہ اگر کسی نے گمان کیا ہے تو پھر ممکن بھی تو ہوگا۔ اب اس تکیئے کی برکت سے انسان ممکنات پہ غور کر رہا ہے۔ کیا پتہ یہ انسان کبھی اس ممکن سے دو چار بھی ہوجائے، جس کے ایصال ثواب کے حقدار تنہا مولانا ہی ٹھہریں گے۔
ٹھیک یہی معاملہ ویلنٹائن ڈے کا ہے۔ ویلینٹائن ڈے کی تشہیر وترویج میں اتنا حصہ خود مغرب یا پھر مجھ جیسے سیاہ کاروں نے نہیں ڈالا جتنا کہ حلق پھاڑ خطبوں کے ذریعے خود فقیہِ شہر نے ڈال رکھا ہے۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح ہندوستان کی انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا کے کارکن غیرت ایمانی کے تحت بعض ہندی فلموں کے اشتہارات جلا کر در اصل دنیا کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ بابو بڑی ہی کوئی دھانسو مووی آگئی ہے ضرور دیکھ لینا۔ پریٹی زنٹا، رانی مکھرجی ، سنی دیول اور بوبی دیول کو اب اگر کوئی چیز اٹھا سکتی ہے تو وہ شیو سینا کا احتجاج ہی ہے۔ ان دنوں جب بھی سماجی ذرائع ابلاغ پہ آیئے دو چیزیں زیر بحث ملیں گی۔ ایک ویلنٹائن پر عائد ہونے والی مبینہ پابندی، دوسرا ویلنٹائن کی شرعی و تہذیبی حیثیت۔ جوڑے شاپنگ میں مصروف ہیں اور یہاں ورق کے ورق سیاہ ہوئے جا رہے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے سے پیدا ہونے والے اخلاقی مسائل پہ یارِ من محمد اشفاق نے ایک عرق ریز تحریر لکھی۔ ویلنٹائن کے سات پردوں میں کیا ہوتا ہے، اس کے ثبوت کے لیئے انہوں نے برانڈڈ کونڈمز ہمارے سامنے رکھ دیئے۔ انہوں نے لکھا کہ تحقیق کے مطابق ویلنٹائن کے موقع پر کونڈمز کی مانگ میں تیس فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔
اشفاق اپنا یار ہے، سو بے تکلفی سے انہیں ایک سمت سے دوسری سمت پہ موڑ دیتا ہوں۔ قبلہ کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ کشمیر ڈے سے ایک رات قبل کونڈمز کی مانگ میں کتنا اضافہ ہوجاتا ہے؟ کیا یہ اضافہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے کسی منفرد اظہار کے واسطے ہوتا ہے؟ چودہ اگست کی رات جو اس کمبخت مارے کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، اس کا سبب کیا ہے؟ کیا یہ واٹر پروف جشنِ آزادی کا کوئی اہتمام ہوتا ہے؟ کیا اقبال ڈے پہ مانگ میں اس لیئے اضافہ ہوتا ہے کہ خون گرم رکھنے کے واسطے پلٹا جائے جھپٹا جائے اور جھپٹ کر پلٹا جائے؟ اور قائد ڈے پر کس جذبہ خیر سگالی کے تحت مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے؟ سب چھوڑیئے، کبھی مقدس تہواروں کی صبح کو حلال خوروں سے تحقیق کروایئے گا کہ آج کی صبح محبت کے کتنے ثبوت وشاہد اکٹھے کئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مبارک دن سے ایک رات پہلے احتیاطی تدابیر کی مانگ میں اس لئے تو اضافہ نہیں ہوتا ہوگا کہ یہ مبارک شب پورے عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جائے۔ چاند رات کا کیا کیجئے گا؟
بھائی میرے، جنسی بے راہ روی کا کسی موقع سے کیا تعلق۔؟ تعلق تو خود جنسی آمادگیوں کا ہے، موقع تو اگر پیر کے آستانے میں بھی میسر آئے تو کون کافر جانے دے گا صاحب؟ ناگوار گزرے گا، مگر سچ نے اس سے پہلے کب خوشگوار اثرات مرتب کئے ہیں۔ سچ تب ہی خوشگواریاں مہیا کرتا ہے جب ہم سچائی کو تسلیم کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ سچائی سے جب ہم منہ موڑ لیتے ہیں تو بے سمت حکمت عملیوں پہ اتر آتے ہیں۔ مثلا فاضل جج کا احساس یہ ہوسکتا ہے کہ ویلینٹائن ڈے پہ پابندی عائد کر کے فحاشی کا جنازہ نکالا جا سکتا ہے۔ آپ چونکہ جج کو سراہ رہے ہیں تو آپ کا گمان بھی وہی ہوا۔ کچھ دیر کو رک جایئے، گہرا سانس لیجیئے، میسر ہو تو دو گھونٹ پانی حلق سے اتار لیجئے، بیٹھے اور اطمینان سے مجھے سمجھا یئے کہ ویلنٹائن پہ پابندی عائد کرنا کیسے ممکن ہے؟ کیا اس دن کسی جوڑے کا ساتھ چلنا ممنوع ہوگا؟ ہاتھ ملانے کی ممانعت ہوگی؟ خوشبو کی طرح کسی کی پذیرائی کرنے پہ فرد جرم عائد ہوگی؟ ہنسنے پہ قد غن ہوگی؟ مسکراہٹ پہ ایف آئی آر کٹے گی؟ کسی کتاب سے پھول نکلا تو کوڑے پڑیں گے؟ عہد وپیمان کرتی زبانیں کھینچ لی جائیں گی؟ شہر کی ناکہ بندی ہوگی؟ افتخار عارف کوچ کرجائیں گے؟ پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی؟
کافی شاپ اور ریستوران میں بیٹھے جوڑوں کے دانت چیک ہوں گے؟ سرخ رنگ کی مصنوعات کالعدم قرار دیدی جائیں گیں؟ سرخ پوشاکوں میں ملبوس جوڑے قید کر لیئے جائیں گے؟ تحائف کھول کر ان کے نوشتے پڑھے جائیں گے؟ جنہوں نے جانو، جانم، صنم، ڈارلنگ، مائی سویٹ ہارٹ جیسے الفاظ لکھے ہوں گے دھر لیئے جائیں گے؟ عشاق کے منہ سونگھے جائیں گے؟ آخر کیا ہوگا اور کیسے ہوگا؟ حیرت سے میں مرا جا رہا ہوں کہ خوشبو کو کیسے کوئی قید کر سکتا ہے؟ مہک کو کوئی کیسے پابند کر سکتا ہے؟ احساس پہ پہرے کیسے بٹھائے جا سکتے ہیں؟
دیکھیں بات سنیں۔ میں آپ کی دعوت کا مخاطب ہوں۔ آپ اپنی نہج پہ میری تربیت کر سکتے ہیں، یہ آپ کا حق ہے۔ اگر آپ نے وہ آداب مجھے نہیں سکھلائے، جس کو آپ اقدار کہتے ہیں، تو میں سادہ پانی پی کر بھی بہک سکتا ہوں۔ اگر آپ نے میرے ظرف کی تزئین کی ہوئی ہے تو مجھ جیسے بادہ کش کو جام وپیمانے بھی حیرت سے دیکھیں گے۔ قانون کا نہیں، احساس افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ ہر خاندان قوم قبیلے اور معاشرے میں محبت کو برتنے کا اپنا ہی ڈھنگ ہے۔ میں اپنا اسلوب مسلط نہیں کر سکتا۔ آپ ویلنٹائن ڈے منانے سے روک لیں گے، مگر جہاں ہر شب شبِ برات اور روز روزِ عید ہو وہاں جناب کا فہم کیا کرے گا؟ پھر آپ کے یہ خطبے؟ بہنوں پہ قیاس کرتی منطقیں؟ خبر ہے آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کچھ نہیں کر رہے۔ آپ مدنی تکیہ بیچ رہے ہیں۔
Feb 12, 2016
Feb 12, 2016
بشکریہ ہم سب