اسرائیل نے
فلسطینی قومی شناخت مٹانے کے لیے پچھلے ستر برس میں جو حرکتیں کیں ان میں سب سے
تباہ کن قدم یہ تھا کہ صدیوں سے موجود قصباتی و علاقائی ناموں کو عبرانی جامہ پہنا
دیا جائے یا نام ہی بدل دیا جائے۔چنانچہ جافہ کا مشہور قصبہ یافو ہو گیا۔نجمتہ
الصبح نامی بندرگاہ کا عبرانی ترجمہ ایلات کر دیا گیا اور اب کسی کو اس کا اصل نام
یاد نہیں۔تین برس پہلے تک تل ابیب سے بیت المقدس جانے والی مرکزی شاہراہ پر
جو سائن بورڈ نصب تھے ان پر عبرانی اور عربی میں یروشلم اور بریکٹ میں ( القدس
) لکھا ہوا ہوتا تھا۔اب ( القدس ) غائب ہو چکا ہے۔ اسی طرح مقبوضہ غربِ اردن
کا قدیم تاریخی شہر الخلیل ہیبرون ہوگیا ہے۔
بھارت میں بی جے پی
حکومت ہندوستانی مسلمان تاریخ کے ساتھ یہی کھلواڑ کر رہی ہے۔جیسے تین برس قبل نئی
دلی کی مشہور اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر کے اے پی جے عبدالکلام روڈ رکھ دیا
گیا۔جلال الدین اکبر روڈ کا نام مہارانا پرتاپ سنگھ کے نام سے بدلنے کے لیے بھارتی
بری فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ بطور وزیر خاصے سرگرم ہیں۔
تاج محل کے بارے میں
بھی بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ یہ شیو مندر کے اوپر تعمیر کیا گیا لہذا اس کا نام بھی
شیو محل رکھا جائے۔ تاریخ کو ایسے حربوں سے بدلنا اگلی نسلوں کے تاریخی شعور کو
آلودہ کرنے اور ان کو سونپی جانے والی امانت میں خیانت کے برابر ہے۔مگر میں کس
منہ سے اسرائیل اور بھارت کی ان حرکتوں پر تنقید کروں جب میرے اپنے ملک میں یہی
کام زیادہ شد و مد سے جاری و ساری ہے اور سوائے اکا دکا آوازوں کے کوئی اس ذہنیت
کو اصل تاریخ کو مصنوعی تاریخ سے بدلنے کی کوشش کے طور پر قابلِ مذمت نہیں سمجھتا۔
ہر تاریخی نام کو بلا
جواز بدلنے کا مطلب اس نام سے جڑے ماضی ، برادری ، مذہب اور شہریوں کو اس کی اوقات
یاد دلانے اور اپنی حاکمیت جتانے کے مترادف ہے۔ہم اس پر تو چیختے رہتے ہیں کہ فلاں
بارہ دری کیوں ڈھا دی، کٹاس راج کا تالاب کیوں خشک ہوگیا ، تاریخی عمارتوں کا حلیہ
کیوں بدل دیا گیا مگر اتنے ہی سنگین جرم یعنی نام کی تبدیلی ہمارے نزدیک کوئی
اہمیت نہیں رکھتی ؟
ہرچند بشن داس دس برس
بلدیہ کراچی کے چیرمین رہے اور انھی کے دور میں کراچی میں بجلی آئی۔ان کی خدمات
کے اعتراف میں کراچی کی ایک شاہراہ کا نام ہر چند بشن داس روڈ رکھا گیا۔مگر تقسیم
کے بعد اس کا نام بلدیہ کراچی کے ایک افسر صدیق وہاب کے نام سے بدل دیا گیا۔کیوں ؟
کیا ہرچند بشن داس کوئی ڈاکو تھا یا صدیق وہاب ہرچند داس سے بھی بڑی شخصیت تھے؟
رام باغ آرام باغ کیسے ہو گیا۔ کیا پاکستان میں آباد رام کا نام لینے والے سب
کوچ کر گئے ؟ برنز روڈ کا نام شاہراہِ لیاقت رکھنے کے بجائے لیاقت علی خان کو
خراِج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک نئی سڑک بنانا کتنا ناممکن تھا ؟
میر پور خاص کی سندھڑی
روڈ سر سید روڈ کیوں ہو گئی؟ کیا سرسید اس علاقے میں ایم اے او کالج کا چندہ
مانگنے آئے تھے ؟ حیدرآباد میں گرلز ہائی اسکول تو بنایا کندن مل نے اور نام اس
کا بدل کے رکھ دیا گیا جامعہ عربیہ ہائی اسکول۔کوئی ٹھوس وجہ ؟ اب تو معاملات اور
نچلے درجے تک آ گئے ہیں۔ بہاولپور کے فرید گیٹ کے اندر ایک گلی کے نکڑ پر لکھا
تھا ’’ گندی گلی‘‘ ۔ دیکھنے میں خاصی صاف ستھری تھی۔میں نے ایک دوکان دار سے پوچھا
بھائی اس نام کا پس منظر کیا ہے۔کہنے لگا اصل میں نام تو اس کا گاندھی گلی تھا مگر
اب ہم اسے گندی گلی کہتے ہیں۔( ایسی بیسیوں مثالیں ہیں مگر کالم کی جگہ کم ہے )۔
لائل پور کا سنگِ بنیاد
تو سر جیمز لائل نے اٹھارہ سو اسی میں رکھا تھا۔کیا کبھی شاہ فیصل لائل پور بھی
تشریف لائے؟ سعودی عرب نے بدلے میں اپنے کسی شہر کا نام الجناح یا بلد الضیا رکھا
؟ کیا بھگت سنگھ برٹش انٹیلی جینس کا جاسوس تھا کہ لاہور کے شادمان چوک اس
ہستی سے معنون کرنے کی اتنی مخالفت ہوئی کہ بلدیہ لاہور نے بھی ہتھیار ڈال دیے ؟
لکشمی چوک کا نام مولانا ظفر علی خان چوک سے کیا اس لیے بدلا گیا کہ لکشمی چوک کی
زمین دراصل مولانا کی خاندانی زمین تھی کہ جس پر کسی ہندو سیٹھ نے قبضہ کر کے چوک
بنا دیا ؟ کرشن نگر کو اسلام پورہ یا دھرم پورہ مصطفیٰ آباد کر کے نظریہ
پاکستان کتنا مضبوط ہو گیا ؟ کیا پرانے نام برقرار رکھنے سے نئی نسل مزید
بگڑ جاتی ؟
کینٹونمنٹ ایریاز میں
آپ کو شامی روڈ، عابد مجید روڈ ، عزیز بھٹی روڈ ، راشد منہاس روڈ ملے گا۔ یقیناً
یہ سب ہمارے ہیرو ہیں اور انھیں یاد رکھنا ہمارا قومی فرض ہے۔ کبھی پینسٹھ کی جنگ
کے ہلال ِ جرات یافتہ ہیرو اختر حسین ملک ، دو بار ستارہِ جرات حاصل کرنے والے ونگ
کمانڈر مارون لیزلی مڈل کوٹ شہید یا اسکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی شہید ستارہ ِ جرات
کے نام پر کوئی شاہراہ ملے تو ضرور بتائیے گا۔انھوں نے بھی مادرِ وطن کے لیے تھوڑی
سی خدمات انجام دی ہیں یا اپنی جان نچھاور کی ہے۔
شہر تو بسائے سئید نواب
شاہ اور نام رکھ دیا جائے بے نظیر آباد ؟ کیا شہید رانی کا اتنا بھی حق
نہیں کہ ان کے نام پر ایک نیا شہر بسایا جا سکے ؟ سلام ہے جیکب آباد کے شہریوں کو
کہ جب ضیا دور میں ان کے شہر کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو نہ صرف بلدیہ
کے ارکان بلکہ عام شہریوں نے بھی احتجاج کر کے یہ کوشش ناکام بنا دی۔
مقصد کیا ہے اس سوچ کے
پیچھے ؟ اگر تو احساسِ برتری جتانا ہے تو آپ کسے جتانا چاہ رہے ہیں۔خود کو
یا دنیا کو ؟ اگر یہ احساسِ کمتری ہے تو اسے نام بدلنے کے بجائے اپنے منتخب ہیروز
کے نام پر نئے شہر ، قصبے ، اسپتال ، اسکول ، پارک بسا کر بھی دور کیا جا سکتا
ہے۔اگر کوشش ہے یہ ثابت کرنے کی کہ ہمارا بحثیت پاکستانی اور مسلمان برِ
صغیر کی پرانی تاریخ ، ثقافت اور رہن سہن سے کوئی رشتہ نہیں تو یہ کوشش ایسی ہی ہے
جیسے میں اپنے والد صاحب کا نام راحت اللہ خان سے بدل کر مولا بخش رکھ دوں کیونکہ
راحت اللہ خان نے مجھے عاق کر دیا تھا یا ان سے مجھے حقیقی باپ ہونے کے باوجود باپ
کا پیار نہیں ملا اور مولا بخش نے مجھے پالا پوسا اور اس مقام تک پہنچایا۔( یہ
محض علامتی مثال ہے۔سنجیدہ نہ ہو جائیے گا )۔
حلوائی کی دوکان پر
دادا جی کی فاتحہ کے اصول پر پرانے ناموں پر نئے ناموں کا ٹھپہ لگا دینا واقعی
کوئی صحت مند عمل ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ آپ چاہیں تو ایبٹ آباد کا
نام بدل کے لادن آباد رکھ دیں ، لاہور کا قبل از اسلام نام بدل کے داتا نگر رکھ
دیں۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ابدال پور کر دیں۔مگر پھر رکشے والے کو بھی بتا دیں کہ بھائی
مجھے ظفر علی خان چوک لے چلو تاکہ وہ اتارتے وقت یہ تو کہہ سکے کہ ’’ بھائی جی اسی
ان پڑھ لوک آں۔ سدھا سدھا لکشمی چونک کہندے تے اینا چکر تے نا پینداں ‘‘۔
بشکریہ ہم سب