پاکستان میں مزدور بچوں کی تعداد ایک کروڑ ہو چکی

احمد علی قریشی

بچپن کا زمانہ خواہشات اُمیدیں اور خواب انسان کوبڑھاپے تک یاد رہتے ہیں تاہم کسی کا بچپن خوشگوار گزارتا ہے تو کسی کا انتہائی کرب مصائب و حسرتوں میں۔ زندگی اِسی ہی آزمائش و امتحان کا نام ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت و مشقت کرنے والے بچوں کو ہم چائلڈ لیبر کہتے ہیں۔ افسوس پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غربت بھوک مفلسی اور مجبوریوں کے سبب والدین بادل نخواستہ اپنے بچوں کو بچپن میں ہی محنت مزدوری والے کاموں پر ڈال دیتے ہیں ، اس غرض سے کہ گھر کا چولہا ٹھنٹدا نہ ہوجائے۔ ہم اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ مزدور بچے ورکشاپوں گھروں مارکیٹوں دکانوں ہوٹلوں بھٹہ ہر جگہ کام کرتے عام دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی ان ننھے  مزدوروں کے چہروں پر موجود حسرتوں خواہشات اور خوابوں کو محسوس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہوٹلوں ورکشاپوں میں اُن کو چھوٹے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ چائلڈ لیبر سے کام زیادہ جبکہ معاوضہ کم دیا جاتا ہے انٹرنشنیل لیبرآرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں مزدور بچوں کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 1996 میں چائلڈ لیبر کا سروے انٹرنشینل لیبر آرگنائزیشن کی معاونت سے مکمل کیا گیا تھا جس کے مطابق اُس وقت ملک میں مزدور بچوں کی تعداد 33 لاکھ تھی ، 2012 کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں مزدور بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے یہ اعدادوشمار اربابِ اختیار اور ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے حوالے سے مختلف قوانین موجود ہیٰں اس کے باوجود مسئلہ جوں کا توں ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل (11)3 کے مطابق 14 سال سے کم عمر بچے سے مزدوری نہیں لی جا سکتی آرٹیکل (25)اے بیان کرتا ہے کہ حکومت 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو لازمی تعلیم مہیا کرےگی ، علاوہ ازیں چائلڈ لیبر سے نجات کی غرض سے مختلف قوانین بنائے گئے جن میں (ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1996) (دی ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز 1995) ( دی فیکٹریز ایکٹ 1934) اور دیگر شامل ہیں۔ سوال یہ ہےکہ ان قوانین پرعمل درآمد کون کروائے گا
ہم آئے روز میڈیا اور اخبارات میں چائلڈ لیبر پر تشدد سے متعلق انتہائی دلخراش خبریں پڑھتے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے معصوم بچوں کو محنت مزدوری کرتے دیکھ کردل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے۔ بھٹہ مزدور بچوں سے متعلق اعدادوشمار کے مطابق پاکستان بھارت اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ ایک وہ بھی بچے ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم اور اُس کی نیلی سیاہی کے نشانات موجود ہیں اور وہ بھی بچے ہیں جن کے ہاتھوں میں آئل کے نشانات اور مختلف اوزار موجود ہیں جن کو ذرا سی غلطی کرنے پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، جن کو یہ غم ایک پل کیلئے سکون سے جینے نہیں دیتا کہ اگر اُستاد نے نوکری سے نکال دیا تو گھر کا چولہا کیسے گرم رہے گا۔ مزدور بچوں کی مجبوریوں سے مالکان بھرپور فائدہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان مزدور بچوں کی بھی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ سکول جائیں کھیل کے میدان میں کرکٹ اور دیگر اسپورٹس سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیں لیکن خراب معاشی حالات غربت اُن کو ایسا کرنے نہیں دیتی۔
پاکستان کو معروض وجود میں آئے 71 برس کا عرصہ بیت چکا ہے ، افسوس آج تک کوئی ایسی حکومت برسراقتدار نہیں آئی جس نے چائلڈ لیبرکے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کیے ہوں۔ یہ ہی وجوہات و اسباب ہیں کہ ہمیں ورکشاپوں میں ننھے مکینک نظر آتے ہیں ، ہوٹلوں میں ننھے  ویٹر گھروں اور دکانوں میں ننھے  ملازمین جبکہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ننھے  مزدور عام دکھائی دیتے ہیں۔ شاید ہم سب خود غرض ہوچکے ہیں ہم ان معصوموں کو کم عمری میں مزدوری کرتے دیکھ کر اظہارِ افسوس ضرور کرتے ہیں لیکن اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے۔ جو حضرات چائلڈ لیبر سے محنت مشقت والا کام کرواتے ہیں شاید کبھی کبھار اپنے کیے پر پشیمان بھی ہوتے ہونگے تاہم جن کو راتوں رات مالدار بننے اور اپنی تجوریوں کو نوٹوں سے بھرنے کا جنون ہو اُن کو کسی کے آنسو مجبوریوں اور خواہشات سے قطعاَ کوئی سروکار نہیں۔ اس منفی سوچ ورحجان کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ میرا اُن بے ضمیروں سے سوال ہے کیا وہ پسند کریں گےکہ اُن کےاپنے بچے بھی اینٹوں کے بھٹے یا دیگر مقامات پر کم عمری میں محنت مزدوری کریں۔ اس تناظر میں حکومت کو چاہیے کہ وہ غربت کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرے تاکہ کوئی ماں غربت بھوک فاقوں سے تنگ آکر اپنے لعل کو سکول سے اُٹھا کر مزدوری کے کام پر نہ ڈالے۔


بشکریہ  ہم سب