دنیا کے چونتیس ممالک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے
افراد روزانہ اوسطاً چھ سے نو گھنٹے تک آن لائن رہتے ہیں
ہم سب کو گاجر اور بروکولی (شاخ گوبھی) کے صحت
مند ہونے کے بار ے میں معلوم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا ہم انھیں کھانے میں سارا
دن صرف کر سکتے ہیں۔ کسی بھی چیز کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے فائدے کی بجائے
الٹا نقصان پہنچتا ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ ٹیکنالوجی کے کثرت سے استعمال سے
خوش دکھائی دیتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرنے والی
کمپنی گوبل ویب انڈیکس کی جانب سے 34 ممالک میں کیے جانے والے سروے کے نتائج کے
مطابق انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد روزانہ اوسطً چھ گھنٹے تک آن لائن رہتے
ہیں۔ ان ممالک میں شامل تھائی لینڈ ، فلپائن اور برازیل میں روزانہ نو گھنٹے سے
بھی زیادہ وقت آن لائن رہتے ہیں جس میں ایک تہائی وقت سوشل میڈیا کے استعمال میں
گزارتے ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی ہمارے دماغ کے ساتھ کیا کرتی ہے؟
ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے اب
بھی اس کے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات پر سائنسی بنیادوں
پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ کینیڈا میں بچوں ارو بالغوں کی دماغی صحت کی ماہر ڈاکٹر
شمی کانگ کی توجہ بھی ٹیکنالوجی کی لت میں مبتلا افراد پر مرکوز ہے۔انھوں نے بتایا
کہ ٹیکنالوجی کا اضطراب، ذہنی دباؤ، خود سے بیزاری سے تعلق بڑھتا جا رہا ہے اور
انٹرنیٹ کے کثرت سے استعمال کی اب طبی تشخیص کی جاتی ہے۔ جیسے خوراک میں صحت مند
کھانوں کے ساتھ سپر فوڈ اور جنک فوڈ دستیاب ہوتے ہیں اسی طرح ٹیکنالوجی کی بھی
مختلف اقسام ہوتی ہیں اور اگر آپ ان کے ساتھ اچھا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو
آپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کے آپ کے دماغ پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
ہمارے دماغ کا ٹیکنالوجی پر ردعمل کیسا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر کانگ کا کہنا ہے کہ ہمارا دماغ ٹیکنالوجی
سے رابطے میں آنے پر ’میٹا بولزمز‘ یا کیمیائی تبدیلی سے گزرتا ہے اور ہمارے جسم
میں چھ مختلف قسم سے نیورو کیمیکل جاری کرتا ہے۔
سیروٹونن: یہ نیورو کیمیکل تب جاری ہوتا ہے جب
ہم کچھ تخلیقی کام کر رہے ہوتے ہیں، کسی سے رابطے میں ہوتے ہیں اور کسی کام میں
شامل ہوتے ہیں۔
اینڈورفن: یہ کیمیکل انسانی جسم کے لیے ’دردکش‘
کی حیثیت رکھتا ہے
اوکسیٹاکسن: یہ معنی خیز باتوں کے تبادلے سے
جاری ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ ایک مفید نیورو کیمیکل ہے مگر انٹرنیٹ پر دوسروں کو
ہدف بنانے والے افراد اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈوپامین: اس نیوروکیمیکل کا تعلق فوری فائدہ
ملنے سے ہوتا ہے لیکن یہ ایک لت بھی ہے۔ اس کیمیکل کو ریلیز کرنے کے لیے ٹیکنالوجی
کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
ایڈرینالین: یہ نیوروکیمیکل لڑائی اور اڑان جیسی
سرگرمیوں میں ہمارے ردِعمل کو منظم کرتا ہے لیکن لائیکس، پوکس اور سوشل میڈیا پر
موازنے سے بھی جاری ہوتا ہے۔
کورٹیسول: یہ نیوروکیمیکل دباؤ کا شکار، نیند سے
محروم، بہت مصروف اور مضطرب افراد کی پہچان ہے۔
مفید، زہریلی اور جنک ٹیکنالوجی
ڈاکٹر کانگ کہتی ہیں’مفید ٹیکنالوجی میں ہر وہ
چیز شامل ہے جو دماغ کی افزائش کرنے والے سیراٹونن، اینڈورفن یا اوکسیٹاکسن کو
جاری کرتی ہے۔‘ میڈیٹیشن ایپس، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والی ایپس اور لوگوں
کے ساتھ پکے اور سچے تعلقات کوفروغ دینے والی ایپس اس کی مثالیں ہیں لیکن اگر آپ
اس میں عادت کو پکا کرنے والے ڈوپامین کی اچھی مقدار ملائیں تو یہ آپ کو سوشل
میڈیا کا عادی بنا دے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مثال کے طور پر ایک تخلیقی ایپ
ہے اور آپ کا بچہ اس کا استعمال موویز بنانے کے لیے کرتا ہے۔ لیکن سوچیں اگر وہ
اس ایپ کو چھ یا سات گھنٹے استعمال کرنا شروع کر دے۔‘
’یہ کینڈی کرش کی طرح جنک ٹیکنالوجی نہیں ہے جو صرف ڈوپامین جاری
کرتی ہے لیکن پھر بھی آپ کو محتاط ہونا پڑے گا اور ایک حد کا تعین کرنا پڑے گا۔‘
اس کے برعکس ہم جنک ٹیکنالوجی کا استعمال صرف
’خود کو تباہ‘ کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
وہ اس کا موازنہ جذباتی ہو کر جنک فوڈ کھانے سے
کرتی ہیں کیونکہ ’ہم اسے ذہنی دباؤ میں آ کر کرتے ہیں۔‘
’ہم مضرِ صحت چیزوں کی فکر اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس میں ملنے
والے فائدے میں مزا آتا ہے جیسے فحش مواد، سائبر غنڈا گردی، جوا، سلاٹ مشین جیسی
لت آور ویڈیو گیمز اور نفرت آمیز گفتگو۔‘
ٹیکنالوجی ڈائیٹنگ
ڈاکٹر کانگ کا کہنا ہے کہ کسی بھی صحت مند ٹیکنالوجی
ڈائیٹ میں زہریلی چیزوں سے دور رہنا چاہیے۔ لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے تھوڑا سا
لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہم سب کو تلقین کی جاتی ہے کہ پراسیسڈ کھانا اور میٹھے
مشروبات سے گریز کریں لیکن جمعے کی شب بچوں کے ساتھ پیزا اور پوپ کارن کھانے میں
کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح کبھی کبھار بغیر سوچے سمجھے انسٹاگرام پر سکرول کرنے
یا ویڈیو گیمز کھیلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ڈاکٹر کانگ کہتی ہیں کہ تاہم اگر آپ کو ذیابیطس
ہے یا لاحق ہو سکتی ہے تو چینی کو لے کر آپکی طبی تجویز عام لوگوں سے قدرے سخت ہو
گی۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایسے فرد ہیں جس کے
خاندان میں کوئی شخص کسی چیز کا عادی رہا ہے یا اضطراب، ذہنی دباؤ کا شکار رہا ہے
یا اسے وقت کی پابندی کرتے ہوئے دقت ہوئی ہے تو آپ کو خیال رکھنا پڑے گا کیونکہ
آپ کی عادات کے زہریلی لت میں تبدیل ہونے کے امکانات خطرناک حد تک زیادہ ہیں۔ وہ
کہتی ہیں خاص طور پر بچے بہت غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اتنی ریسرچ موجود ہے کہ آن
لائن کسی مسئلے کا شکار بننے والے بچوں کا پہلے سے ہی پتہ چلایا جا سکے۔
ڈیجیٹل ڈیٹوکس
دنیا میں انٹرنیٹ تک رسائی اور موبائل فون کا
زندگیوں میں عمل دخل دن بدن بڑھ رہا ہے مگر آئے دن مسلسل ایک دوسرے سے جڑی
زندگیوں کے خلاف مزاحمت دیکھنے میں آتی ہے۔ گلوبل ورلڈ انڈیکس کے مطابق امریکہ
اور برطانیہ میں ہر 10 میں سے سات انٹرنیٹ صارفین نے ’ڈیجیٹل ڈائیٹنگ‘ یا ’مکمل
ڈیجیٹل ڈیٹوکس‘ کیا ہے۔ یہ کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنے سے لے کر ایپس ڈیلیٹ
کر کے آن لائن گزارے جانے والے وقت کو بہت کم کر دینے پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر کانگ کہتی ہیں کہ ’ٹیکنالوجی کا استعمال
کرتے ہوئے باقی تمام انسانی ضروریات پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ہمیں ہر رات کو آٹھ
نو گھنٹے سونا چاہیے، ہمیں روزانہ دو تین گھنٹے اپنے جسم کو حرکت دینی چاہیے۔ ہمیں
ورزش کرنی چاہیے، گھر سے باہر جانا چاہیے اور دھوپ سینکنی چاہیے۔خواہ آپ سب سے
بہتر ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہوں لیکن اگر آپ اسے انسانی سرگریوں کا متبادل
سمجھ رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ حد سے ذیادہ ہے۔
ایکسپریس
اردو