سلیبریٹیز اور پاپارازیوں (یعنی موقع پرست فوٹوگرافرز) کے تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہے ہیں۔
ذاتی زندگی میں مداخلت کے الزامات ہوں یا بھدی تصاویر پر تنقید، ستارے ہر وقت ہی پاپارازی پر گرجتے برستے رہتے ہیں۔
لیکن پچھلے کچھ سالوں میں پاپارازیوں کی جانب سے شکایتوں کے پل باندھ دیے گئے ہیں۔
پاپارازی فوٹوگرافرز کی بڑی تعداد نے اداکارہ جینیفر لوپیز اور ماڈل جی جی حدید جیسی جانی مانی ہستیوں کے خلاف مقدمات دائر کیے ہیں، جن میں ان سلیبریٹیز پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بغیر اجازت تصاویر شیئر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
کاپی رائیٹ کے تنازعات کیا ہیں؟
آپ کا خیال ہو گا کہ اگر آپ کی تصویر اتاری جا رہی ہے، تو آپ کو اسے استعمال کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔
لیکن کاپی رائیٹ کے قانون کے مطابق تصویر کے استعمال کا حق صرف فوٹوگرافر رکھتا ہے، جب تک کوئی ایجنسی یا تھرڈ پارٹی اس تصویر کو استعمال کرنے کا لائسنس نہ لے۔
بیشک آپ ایسی سلیبریٹی ہیں جو ہالی وڈ میں اپنے پسندیدہ ریستوران سے رخصت ہوتے ہوئے کیمرے کی زد میں آگئی ہوں یا اپنے دوست کے کیمرے میں قید کیے گئے لمحات میں ادائیں دکھا رہی ہوں، تصویر اسی شخص کی ملکیت ہو گی جس نے اسے اتارا ہے۔
انٹلیکچویل پراپرٹی کے تنازعات کے ماہر امریکی وکیل نیل چٹرجی کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں سوشل میڈیا نے بہت پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس مسئلے کی ایک وجہ آن لائن ری ٹویٹس جیسی چیزیں ہیں، جو تصاویر کو کاپی رائیٹ رکھنے والے شخص کے اختیار سے دور لی جاتی ہیں۔
حال ہی میں درج کیے گئے مقدمات میں فوٹو ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سلیبریٹیز کی طرف سے لائسنس کے بغیر لاکھوں پرستاروں میں تصاویر بانٹنا سراسر ناانصافی ہے۔ کچھ ایجنسیوں نے تو اپنی آمدن میں نقصان کے لیے ہرجانے کی اپیل بھی کی ہے۔
ایسے مقدمات اس لیے بھی عام ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ انسٹاگرام جیسی سوشل میڈیا ایپ پر ایک تصویر 10 لاکھ ڈالر تک کما لیتی ہے۔
کلوئی اور کم کارڈیشیئن کا شمار ان لوگوں میں کیا جاتا ہے جن کے خلاف سب سے پہلے کھلے عام کاپی رائیٹ مقدمات دائر کیے گئے۔
کلوئی نے میامی کے ایک ریستوران میں پاپارازی کی اتاری گئی تصویر کو انسٹاگرام پر ڈالا تھا، جس کی وجہ سے 2017 میں ان پر کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ دائر کیا گیا۔
برطانوی ایجنسی ایکسپوژر فوٹوز نے اس تصویر کے عِوض 175000 ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ کیا۔
ایجنسی کے مطابق استعمال کا لائسنس صرف ڈیلی میل کو جاری کیا گیا تھا، لیکن کلوئی نے اجازت لینے کے بجائے تصویر سے ایجنسی کا نام مٹا کراسے اپنے انسٹاگرام پر ڈال دیا۔
ایجنسی نے دلیل دی کہ کلوئی کی تصویر 6.7 کروڑ لوگوں نے شیئر کی اور یہ فعل ’جانتے بوجھتے، ارادی طور پر اور بد نیتی کے غرض سے کی گئی کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی تھی۔
بالآخر کلوئی نے انسٹاگرام سے وہ تصویر اتار لی، اور پچھلے سال دونوں فریقین کی جانب سے مقدمہ برطرف کر دینے پر اتفاق ہو گیا۔
لیکن کلوئی نے تسلیم کیا کہ یہ ان سب بہنوں کے لیے ایک مسلسل مسئلہ بنا ہوا ہے۔
انھوں نے ٹوئٹر پر اپنے مداحوں کو بتایا کہ آئندہ انھیں تقریبات کے دوران کھینچی جانے والی تصاویر شیئر کرنے میں کافی وقت لگا کرے گا، کیونکہ اس کے لیے انھیں پہلے اجازت نامہ لینا ہوگا۔
ایک مداح کو جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا ’یہ بات مجھے حیران کر دیتی ہے کہ اپنی ہی تصویر کے لیے مجھے لائسنس کی ضرورت ہے۔‘
ایک اور مداح کو جواب دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’وہ قانون کے تحت میرا پیچھا کر سکتے ہیں، مجھے ہراساں کر سکتے ہیں اور اس سب کے باوجود میں ان کی کھینچی ہوئی اپنی ہی تصویر استعمال تک نہیں کر سکتی؟‘
پچھلے ہفتے ماڈل جی جی حدید کے خلاف بھی اپنی ہی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا۔
جی جی کے خلاف درج کی گئی شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ ان کے انسٹاگرام پر کم از کم 50 ایسی تصاویر کی مثالیں ملتی ہیں جن میں انھوں نے عوامی مقامات، پریس کانفرنس یا رن وے پر کھینچی گئی تصاویر میں فوٹوگرافر کو کریڈٹ نہیں دیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ماہ ایسے ہی ایک مقدمے میں گلوکارہ جینیفر لوپیز پر ان کی انسٹاگرام سٹوری کی وجہ سے مقدمہ دائر کیا گیا۔
کاپی رائیٹ ٹرولنگ: ایک بڑھتا رجحان
چٹرجی کہتے ہیں کہ انڈسٹری میں ان مقدمات کو ’کاپی رائیٹ ٹرولنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ فوٹو ایجنسیز اس رجحان کو پیسے کمانے کے ایک ’نئے اور نفع بخش طریقے‘ کے طور پر آزما رہی ہیں۔
پاپارازیوں کی جانب سے سلیبریٹیز کو ناراض کیے جانے پر پریشانی لاحق ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا ’مشہور شخصیات سے تعلقات ہونے یا نہ ہونے کے بغیر ہی یہ لوگ کسی نائٹ کلب یا ریستوران کے باہر تصویر اتاریں گے۔‘
لیکن صرف سلیبریٹیز کو ہی نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔
مداحوں کی طرف سے بنائے جانے والے ’فین اکاؤنٹس‘ نے بھی شکایت کی ہے کہ نہ صرف انھیں کاپی رائٹ کے مسائل کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ اس عمل میں کچھ فین اکاؤنٹ بند بھی کروا دیے گئے ہیں۔
پچھلے سال کچھ مداحوں نے کِم کارڈیشیئن سے اس مسئلے کا تذکرہ کیا تو کِم نے انھیں بتایا کہ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کا خاندان اپنے اپنے فوٹوگرافرز رکھنے پر غور کر رہا ہے۔
کاپی رائٹ قانون کے بارے میں چٹرجی کا کہنا ہے ’یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو کامن سینسں کا تمسخر اڑاتی ہیں۔‘
’اگر کوئی مجھے ہراساں کر رہا ہے اور میری تصویر بھی اتار لیتا ہے جو مجھے پسند آ جاتی ہے اور میں اسے استعمال کرنا چاہتا ہوں، تو مجھے ہراساں کرنے اور میرے ذریعے سے پیسے کمانے کے بعد اب وہ مجھ پر مقدمہ بھی کر سکتا ہے؟‘
انھوں نے آمدن میں نقصانات کے الزام پر بھی شک کا اظہار کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’کائلی جینر کو ہی دیکھیے۔ آپ کو پتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پروموٹ کرتی ہیں تو اس چیز کا پھیلاؤ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ ایجنسیاں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔‘
سلیبریٹیز اپنا دفاع کیسے کرتے ہیں؟
سنہ 2014 میں اداکارہ کیتھرین ہیگل نے ایک امریکی ڈرگ سٹور پر مقدمہ دائر کر دیا۔ ڈرگ سٹور نے پاپارازی کی جانب سے اتاری گئی کیتھرین کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی جس میں انھوں نے فارمیسی کے کچھ تھیلے اٹھا رکھے تھے۔
لیکن چٹرجی نے نشاندہی کی ہے کہ پاپارازی کی جانب سے کاپی رائٹ کی شکایات کے کیسیز میں یہ دفاع کافی پیچیدگیوں کا حامل ہے اور اس دفاع کو بڑے پیمانے پر آزمایا نہیں گیا۔
سیلیبریٹیز پر دائر کیے گئے کیسیز میں سے زیادہ تر مقدمے برطرف کر دیے گئے یا قانونی طور پر حل ہونے سے پہلے ہی مفاہمت ہو گئی۔
چٹرجی کا کہنا ہے ’آپ دیکھیں گے کہ مفاہمت کے لیے لوگ 10 سے لے کر 20 ہزار ڈالر تک کی پیشکش کرتے ہیں۔ سننے میں یہ بہت زیادہ لگتا ہے لیکن قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے یہ کچھ زیادہ قیمت نہیں ہے اور خاص طور پر ان ہائی پروفائل شخصیتوں کے لیے۔‘
’ان سوالات پر قانونی چارہ جوئی کارڈیشیئن جیسی شخصیت ہی طلب کر سکتی ہے، جس کے پاس بہت زیادہ پیسے ہوں اور جو (ان کیسیز کے) کمرشل فائدے کو دیکھ سکے۔ اس طرح کی چیزوں کے خلاف لڑائی کو کوئی ایسا ہی شخص جاری رکھ سکتا ہے۔