ملیحہ سید
لیپ ٹاپ آن کیا اور ان پیج کھول کرکالم لکھنے بیٹھ گئی۔ کئی لفظ لکھے، بے ربط جملے بنائے مگر کیا لکھوں، یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ جنگ، پاک بھارت کشیدگی، اور اس کے بھیانک اثرات کیا ہوسکتے ہیں، اس کا شعور سب کو ہے۔ ایک کڑوا سچ ہے کہ جو جنگ نہیں لڑتے و ہ اس کا جشن مناتے ہیں اور جو جنگ لڑتے ہیں، وہ اس کا جشن نہیں منا سکتے۔ دونوں ممالک کے انتہا پسندوں کو خبر کروکہ جنگ کی صورت میں صرف بیوگی اور یتیمی جنم لیتی ہے، اور ہمیں بیواؤں اور یتیموں کا بر عظیم نہیں چاہیے۔ جنگ کا اختتام بھی جب میز پر ہی ہونا ہے تو کیوں نہ آغاز پر ہی یہ ٹیبل سجا لی جائے تاکہ نقصان نہ ہو۔
مسلسل انتہا پسندی دیکھ دیکھ کر سوچیں منتشر تھیں اس لیے جو لکھا ڈیلیٹ کر دیا۔ دن میں کئی بار یہ حرکت کی، آخر کالم لکھنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔ دوپہر کے قریب اخبار پڑھنے بیٹھی۔ آخری صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر نے ناصرف توجہ اپنی طرف مبذول کرالی، بلکہ کالم کے لیے موضوع مل گیاشاید۔ ایسی خبریں تسلسل سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کاحصہ بن رہی ہیں، جن میں مائیں اپنی ہی اولاد کوقتل کر رہی ہیں جوکہ انتہائی شرمناک ہے۔
خبر کے مطابق شجاح آباد میں ماں نے ایک ماہ کا بیٹاعلی حیدر گہرے کنویں میں پھینک دیا، ریسکیو اہلکاروں نے اسے باہر نکالا لیکن وہ ایک گھنٹے بعد دم توڑ گیا۔ خبر کے اختتام پر لکھا تھاکہ ماں کا ذہنی توازن درست نہیں۔ یہاں پر کئی سوال جنم لیتے ہیں کہ اگر عورت ذہنی مریضہ تھی تو اس کی شادی کیوں کی؟ اگر شادی کر دی تھی اور وہ ماں بھی بن گئی تو گھر والوں نے بچے کی حفاظت کو یقینی کیوں نہیں بنایا؟ بچے کا باپ کدھر تھا، باپ نہیں تھا اور یہ بچہ کسی ظلم کی پیداوار تھا تو گھر والے، محلے والے اس ظلم پر چپ کیوں تھے؟ ایک ایف آئی آر ان کے خلاف بھی کاٹی جائے۔ عورت کا مکمل معائنہ کرایا جائے اور نکاح نامے کی کاپی ہر صورت حاصل کی جائے تاکہ اپنے ہی بچے کے قتل کے الزام میں بند ایک پاگل انسان کو انصاف مل سکے اور اگر پاگل پن ایک کہانی ہے تو کہانی کے قلم کار اور ہدایت کار دونوں کو گرفتار کیا جائے۔
کوئی تیس یا چالیس سال پہلے بر عظیم پاک و ہند میں لکھا جانے والا ادب اور بننے والوں فلموں میں یہ اکثر دکھایا جاتا تھا کہ ہیرو یا ہیروین پاگل ہوتے ہیں، جن کی شادیاں کر دی جاتی ہیں کہ شادی کا بعد ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ ”فلسفہ“ کئی کامیاب فلموں اور ناولوں کا مرکزی خیال ہوتاتھا۔ فلمیں اکثر اداکاری اورمیوزک کی بنیادپر کامیاب ہو جاتی تھیں۔ مگر جب اس بھیانک سوچ و فلسفے کا اطلاق عملی زندگی میں ہواتوہزاروں زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ کہانی اکثر ایک پاگل امیر زادے یا زادی اور غریب یا بے روز گار رشتہ دار لڑکا اور لڑکی کے گرد گھومتی تھی۔ مجھے لگتا ہے آج بھی یہ سوچ موجود ہے اور اکثر ایسی خبروں کا اختتام اسی جملے پر ہوتا ہے کہ ماں کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔
عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کے اندر کی عورت ختم ہو جاتی ہے، صرف ایک ماں جاگ اٹھتی ہے جو اپنے بچے کو پروان چڑھانے میں اپنی عمر گزار دیتی ہے۔ کئی خواتین ایک یا دو تین بچوں کے بعد جوانی میں ہی بیوہ ہو گئیں، انہوں نے اپنی جوانیاں بچوں کی پرورش میں گزار دیں، اپنے اندر کی عورت کو ختم کر ڈالا۔ جنت صرف بچے پیدا کرنے پر ہی نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے ممتا کے سارے فرائض اداکرنے پڑتے ہیں مگر آج کی جدیدیت نے جہاں انسان کے خالص پن کو ختم کر دیا ہے وہیں ماؤں میں ممتا بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔
کہیں بچے نے شور مچایا تو ماں نے مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ کہیں شوہر سے پوری نہیں ہو رہی اور ایک یا کئی عدد ”بوائے فرینڈز“ بھی رکھے ہوئے ہیں تو جومرد (شوہر) خرچہ پورا کر رہا ہے، اس کو خبر نہ ہو جائے، اپنا ہی بچہ مار ڈالا۔ کہیں طلاق ہو گئی ہے اور دوسری شادی میں بچے رکاوٹ ہیں تو بچوں کو راستے سے ہٹا دیا۔ مرد اور زن کی تخصیص میں منقسم معاشروں میں انسانیت پروان نہیں چڑھا کرتی۔ اس کے لیے اہم ترین ہتھیار مذہبی تعلیمی و تربیت ہے جو جنسی خواہشات پر قابو پانے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔
ڈاکٹر ہارون رفیق، ایک سیکس تھراپسٹ تھے۔ میرے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے تھے، ایمینسٹی انٹرنیشل کے ساتھ وابستگی کے دوران ان سے کافی مختلف موضوعات پر سیر حاصل بحث ہوتی تھی۔ ان سے ایک محفل میں کسی نے یہ سوال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایسے مریض جن میں سیکس کی طلب نارمل سے ابنارمل کی حدود میں داخل ہو تی نظر آئے تو وہ انہیں روزہ رکھواتے ہیں۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ روزہ وہ مذہبی عبادت ہے جس میں تزکیہ نفس بہترین انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسان کو اپنے سفلی جذبات پر قابوپانے میں مدد دیتی ہے۔ انسان روزے کی حالت میں برا نہیں سوچتا اس لیے وہ اپنے مریضوں کے لیے روزہ کو اپنے علاج کا حصہ بناچکے تھے اور ہفتے میں دوبار اس پر عمل کراتے تھے۔
انسان اشرف المخلوقات کہلایا تو اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں اہم ترین جانوروں کی طرح جگہ جگہ منہ مارناشامل نہیں۔ انسان کئی وقار اپنی ذات میں لے کر چلتا ہے مگر عصر حاضر جس میں انسانیت کے درجات بہت کم ہوتے جا رہے ہیں وہیں ماں جیسی ہستی بھی اپنے وقار سے بہت نیچے گر گئی ہے۔ کہنے کو یہ چند مائیں ہو گی مگر ان کا کردار دوسروں کو بھی شکوک وشبہات کے دائرے میں لے آتا ہے۔ مذکورہ بالا کیس کو ایک طرف رکھ کر گذشتہ جتنے بھی واقعات سامنے آئے ہیں ان میں جنسی خواہشات کی عد م تکمیل اور شوہرکے ساتھ ناچاقی سر فہرست تھے۔
اب کچھ احباب کہیں گے کہ باپ کے حوالے سے بھی ایسی خبریں آتی ہیں تو کہنا یہ ہے کہ عورت سے ایسے رویے کی توقع نہیں ہوتی، ماں ہر حال میں اپنے بچوں کا تحفظ کرتی ہے اکثر و بیشتر باپ کے شر سے بھی بچاتی ہے، خود مار کھا لیتی ہے۔ اس لیے موضوع ماں کاکردار ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ سنگ دلانہ ہوتا جا رہا ہے جس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ مگرہمارے ہاں اب جوائنٹ فیملی سسٹم کو ایک بوجھ سمجھا جا رہا ہے جس کے بعد بڑوں کا کردار ختم ہو گیا ہے۔
خود مختاری کی خواہش نے جہاں بچوں میں بدتمیزی اور نافرمانی کو جنم دیا ہے وہاں عورت کے بطور ماں کے کردار کو بھی برداشت اور صبر سے محروم کر دیا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں چیک اینڈ بیلینس کا احساس بندہ کو قابو میں رکھتا ہے اور جب یہ ختم ہو جائے کئی افسوس ناک واقعات جنم لیتے ہیں جیسے ہمارے معاشرے میں جنم لے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ریاست کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ ریاست قوانین کے ذریعے ظلم کے یہ دروازے بند کر سکتی ہے اگر چاہے تو۔