ڈاکٹر خالد سہیل
پاکستان کے سفر کے دوران جب میرے عزیز دوست ڈاکٹر علی ہاشمی نے ’جو فیض احمد فیض کے نواسے بھی ہیں اور ایک ماہرِ نفسیات بھی‘ مجھے دعوت دی کہ میں ان کے میڈیکل کالج کے طب اور نفسیات کے طالب علموں سے ملوں تو میں نے اپنے لیکچر کے دوران طلبہ و طالبات کو طب کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آج سے 2500 سال پیشتر یونان میں ایک طبیب پیدا ہوئے تھے جنہیں مغربی دنیا HIPPOCRATES اور مشرقی دنیا بقراط کے نام سے جانتی ہے۔ بقراط وہ پہلے سائنسدان اور دانشور ’طبیب اور ڈاکٹر تھے جنہوں نے جدید طب کی بنیاد رکھی اور طب کی روایت کو مذہب کی روایت سے جدا کیا۔
بقراط کے دور میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں اسی لیے صحتمند ہونے کے لیے وہ گڑگڑا گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے تھے ’دعائیں کرتے تھے اور اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لیے طرح طرح کی قربانیاں دیتے تھے۔
بقراط نے اپنے مریضوں کو بتایا کی انسانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کا تعلق قوانینِ فطرت اور صحت کے اصولوں سے ہے مذہب اور اخلاقیات سے نہیں۔ ایک نیک انسان بھی جب صحت کے اصولوں پر عمل نہیں کرتا تو بیمار ہو جاتا ہے۔ بقراط نے اپنے مریضوں کو سمجھایا کہ گناہوں کی معافی مانگنے اور دعائیں کرنے کی بجائے انہیں صحت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ بقراط نے اپنے مریضوں کو صحت کے چار کلیدی مشورے دیے
1۔ وہ روزانہ ورزش کریں [ بقراط سیر کرنے کو بہترین ورزش سمجھتے تھے ]
2۔ ہر روز وافر مقدار میں پانی پئیں
3۔ گہری نیند سوئیں
4۔ متوازن غذا کھائیں۔
سینکڑوں سالوں کے بعد ساری دنیا کے طبیب آج بقراط کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور انہیں FATHER OF MEDICINE سمجھتے ہیں لیکن ان کی اپنی زندگی میں انہیں اپنے سائنسی خیالات اور طبی نظریات کی وجہ سے بہت سی قربانیاں دینی پڑیں۔
بقراط کی سائنسی سوچ سے اس دور کے مذہبی رہنما اتنے سیخ پا ہوئے کہ انہوں نے بقراط کی اصحابِ بست و کشاد سے شکایت کی اور انہیں سزا دی گئی۔ سقراط کو اپنے خیالات کی وجہ سے زہر کا پیالہ پینا پڑا اور بقراط کو بیس برس کے لیے جیل جانا پڑا۔ قید میں بھی بقراط یاسیت کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اپنی ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے طب کے بارے میں ایک اہم کتاب لکھی جس کا نام COMPLICATED BODY تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھے انسانی صحت کے راز لکھے۔ وہ کتاب بعد میں بہت سی معتبر درسگاہوں کے نصاب میں شامل ہوئی۔
بقراط نے طب کی سائنسی روایت کی جو بنیاد رکھی اس پر GALEN نے ’جو مشرق میں جالینوس کے نام سے جانے جاتے ہیں‘ ایک عمارت تعمیر کی۔ جالینوس کو جراحی کا شوق تھا۔ وہ مردہ جانوروں کی سرجری کرتے تھے تا کہ جسم کے راز جان سکیں۔ اس دور میں مردہ انسانوں کی جراحی کی اجازت نہیں تھی۔ جالینوس کہا کرتے تھے کہ زخم ایک ایسی کھڑکی ہے جس سے ہم انسانی جسم کی عمارت میں جھانک سکتے ہیں۔ جالینوس کا مشورہ تھا کہ ایک طبیب کو ایک فلسفی بھی ہونا چاہیے تا کہ وہ طب کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے راز بھی جان سکے۔
بقراط اور جالینوس کی روایت کو مسلمان طبیبوں نے آگے بڑھایا۔ ان طبیبوں میں بو علی سینا سب سے زیادہ مشہور ہوئے۔ انہوں نے برسوں کی محنت اور ریاضت سے ایک کتاب CANON OF MEDICINE تخلیق کی جس میں مشرق و مغرب کی طب کی تمام روایتوں کی تحقیق شامل تھی۔ وہ کتاب کئی صدیوں تک دنیا کی تمام معتبر درسگاہوں کے نصاب میں شامل رہی۔ میری خوش قسمتی کہ کینیڈا آنے سے پہلے جب میں ایران کے شہر ہمدان میں کام کیا کرتا تھا تو میرے کلینک کی کھڑکی سے بو علی سیناکا مزار دکھائی دیتا تھا۔
بوعلی سینا کی وفات کے بعد مسلمانوں نے دوبارہ مذہب میں پناہ لی اور سائنس کو مغربی دانشوروں کے حوالے کر دیا۔ پچھلی چند صدیوں میں مغرب کے دانشوروں اور سائنسدانوں نے طب میں گرانقدر اضافے کیے جن سے رنگ ’نسل‘ زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر ساری دنیا کے دکھی انسان استفادہ کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سائنس اور طب ساری دنیا کے لیے مسیحائی کے تحفے لے کر آتے ہیں۔ ان تحفوں میں
انفکشن کے لیے اینٹی بائیوٹکس
ذیابیطس کے لیے انسولین
ڈیپریشن کے لیے اینٹی ڈپریسینٹ
اور نفسیاتی مسائل کے لیے سائیکو تھیریپی شامل ہیں۔
اپنے لیکچر میں میں نے طلبا و طالبات کو بتایا کہ کینیڈا میں اپنے کلینک میں ہم GREEN ZONE THERAPY استعمال کرتے ہیں جو ایک SELF HELP PROGRAM ہے۔ یہ طریقہِ علاج اپنی مدد آپ کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس طریقہِ علاج سے ہمارے مریض اپنے مسائل کو سمجھتے ہیں اور پھر ایک صحتمند اور پرسکون گرین زون زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک انسان دوست ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں اخباروں ’رسالوں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے عوام کو جدید طب‘ نفسیات اور سائنس کی بنیادوں پر صحت کی تعلیم دینا ہم سب کی سماجی ذمہ داری ہے۔ جب عوام اپنی صحت کے مسائل اور ان کے حل کو سمجھنے لگتے ہیں تو وہ پیروں فقیروں کے گنڈوں تعویزوں کی بجائے سائنسی اور طبی بنیادوں پر علاج سے ایک صحتمند زندگی گزارتے ہیں۔ صحت کی تعلیم ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ہم ایک صحتمند معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔