دعا مرزا
ہم ڈیجیٹل دور میں رہ رہے ہیں جہاں روز نئے رابطوں کا قائم ہوجانا ایک کلک کی دوری پر ہے۔ ایک طرح سے یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ معلومات اور بحث و مباحثے کے لئے ہر شعبے کے لوگوں سے ملاپ ہوجاتا ہے اور آپ کسی ریسرچ یا تھیسسز میں فوری کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ تو ہوگیا بئی روشن پہلو اب ذرا کڑوے گھونٹ کو پینے کی تیاری کریں۔
اس فیک بک نے نوجوانوں کو ہر وقت مصروف رکھا ہوا ہے۔ لائک سے شروع ہوتا ہے سفر اور پھر کمنٹ پر دیا جاتا ہے پہل ”سگنل“۔ کمنٹ سے اختلاف ہو یا آمادگی بات جیسے ہی انباکس پر آئی پھر باتوں کا یہ سلسلہ ذاتی نمبر پر ہی ختم ہوتا ہے۔ یہ عمر ہ قریبا سترہ سے چوبیس سال کے درمیان ہوتی ہے جب کیرئیر یا تو اپنے پاوں پر کھڑا ہوتا ہے ورنہ بریک اپ کا ماتم دنیا کا سب سے بڑا غم بن جاتا ہے مگر نہیں، اب ڈیجیٹل دور میں تعلق کے ختم ہونے کا غم بھی بس ایک دو روز سے زیادہ نہیں رہتا۔
باقاعدہ بریک اپ پارٹیز بھی ہوتی ہیں جہاں اکثر نیا ہمددر مل جاتا ہے بلکہ فیک بک نے نیا فیچر بھی متعارف کروا رکھا ہے۔ بلاک اور ان فرینڈ نہ کرنا چاہیں تو ”ٹیک آ بریک“ کی آپشن بھی موجود ہے شاید مارک ذکربرگ نے موڈ سونگ کی بیماری کا علاج نکالا ہے۔ خیر یہ سب حملے اتنے اچانک ہوتے ہیں کہ سب کو تلخ حقائق کا پتہ ہونے کے باوجود احتیاط نہیں رہتی البتہ محبت کی تلاش میں ہم اکثر درندے اپنے ساتھ باندھ لیتے ہیں پھر اندھیری رات کہانی کا ایک سیاہ صفحہ بن جاتی ہے جسے مٹانے کے لئے مزید غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں اور پچھتاوا کوڑھ کے مرض کی طرح اذیت دیتا ہے۔
آج کے دور میں دونوں پارٹیوں کو پتہ ہے کہ سارے وعدے صرف لارے ہی ہیں اور ملٹی ٹاسکنگ کے تحت دونوں کھیل کا ایک مہرہ ہیں۔ لڑکی شرماتے شرماتے ادائیں دکھا کر مان جاتی ہیں جبکہ لڑکے کو لگتا ہے کہ اس نے بہت بڑا تیر مارا اور تیس مار خان بن گیا۔ وہ اس خوش فہمی میں ہی جھومتا رہتا ہے کہ وہ بہت بڑا فنکار ہے۔ اکثر یہ جال لڑکی کا ہوتا ہے جسے وہ مانتی نہیں ہے تاکہ بھرم برقرار رہے۔ چلیں ایک قہقہے سے آگے بڑھتے ہیں۔
مارکیٹ میں آج کل نیا سٹنٹ آیا ہے۔ پہلا میسج آئے گا۔ ”دیکھئے میں آپ کو پسند کرتا ہوں اور میں آپ سے بے جا کا تعلق نہیں رکھنا چاہتا کیونکہ آپ سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں“۔ اس پر لڑکی میں اچانک اتنا اعتماد آجاتا ہے جیسے ساری لڑکیوں سے برتری لے گئی ہو حالانکہ یہی میسج چار جگہ اکٹھا بھیجا گیا ہوتا ہے۔ اب یہی شادی کی بات کوئی تین چار بار دہرائی جاتی ہے اور چال کامیاب۔ اس پر لڑکی اسے اسی دن سے مجازی خدا سمجھنے لگتی ہے۔
گھر سے باہر جاتے ہوئے ماں باپ کی رضامندی بعد میں لی جاتی ہے، پہلے میسج جاتا ہے ”میں ذرا سہیلیوں کے ساتھ باہر جاوں؟ ایک گھنٹے میں واپس آجاوں گی“ ریپلائی آتا ہے چادر لے کر جانا اور لائیو لوکیشن سمیت سہیلیوں کے ساتھ بنا کر تصویر بھی بھیجو۔ لڑکی دبی ہوئی ہنسی ہنستے ہوئے اس کو ”پوسیسونس ’سمجھتی ہے اورسہیلیوں والی تصویر میں غیرت مند آدمی کا اکثر دل ساتھ والی پر آجاتا ہے“ پھر اس کی تگ و دو شروع۔ کیا پوچھا آپ نے؟
شادی؟ ہا ہا ہا ایسا نہیں ہوتا اور اگر کبھی قسمت سے ہو بھی جائے تو قید با مشقت کے لئے تیار ہوجائیں کیونکہ آپ کو ایک کوٹھری میں بند کیے جانے کا امکان ہے۔ اگر والدین کی مخالفت کے بعد آپ نے موٖصوف کو جیتا تھا تو بس پھر مبارک ہو ذلالت آپ کو۔ یہ پانچ فیصد کی بات ہے کہ شادہ ہوجائے ورنہ آپ پریشان نہ ہوں شادی کا بہانہ صرف ایک سٹنٹ تھا۔ یقین کریں مجھے بہت غصہ آتا ہے جب لڑکی قابل ہو اور نوکری اس لئے نہیں کر رہی کیونکہ سٹنٹ مین نے منع کیا ہے۔
مرد کی مردانگی تو میں تب مانوں جب وہ ہجوم میں اپنی محبت کو کسی عہدے پر دیکھ کر اس کا ذکر فخر سے کرے اور کسی کی جرات نہ ہو کہ کچھ کہہ سکے۔ سوال پھر محبت کا ہے۔ خیر چھوڑیئے، یہ موضوع جس قدر مختصر ہے اتنا ہی طویل بھی۔ میرا مدعا تو بس اتنا ہے کہ کیا آج کے لوگ جذبات میں اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ تعلق، رابطے، دوستی اور محبت میں فرق ہی نہیں کر پاتے۔ لڑکی ہر اس شخص کو وہ سارے حقوق کیوں دے دیتی ہے جو اس سے دل بہلانے کے لئے رابطے میں ہے۔ یہ تو وہ حقوق ہیں جس پر خدا نے عام سے انسان کو نکاح کے بعد مجازی خدا کا درجہ دے دیا تو خدارا ہر ایرے غیرے کو مجازی خدا نہ سمجھیں