صائمہ ملک
اس تحریر کا مقصد دو انتہاؤں کے تصادم میں ہلاک ہونے والے سچ کا مرثیہ لکھنا ہے۔ اسے کوئی دوسرا نام نہ دیا جائے۔ اسلام آباد میں ایک دین دار باپردہ فیملی رہائش ہے ان کا دست شفقت دینی تعلیم دینے والے مدارس پر اور اہل ِ ملت پر ہمیشہ رہا ہے۔ نیکی کرنے کا موقع ضائع کرنا انہیں آتا ہی نہیں حتیٰ کہ ان کی ہمدرد طبیعت سے ایک مسیحی گھرانہ ابھی اچھی گزر کر رہا ہے۔ اس قدر اعلیٰ اخلاق کہ اسی مسیحی گھرانے کی ایک 19 سالہ بچی خاتون خانہ کے بلند اسلامی نظریہ اور باعمل زندگی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیتی ہیں۔
وہ مسیحی گھرانہ اپنے مسیحی سماج سے شرمندہ ہونے کی وجہ سے بیٹی کو چھوڑ دیتا ہے مگر جن لوگوں نے اسے مسلمان کیا ان سے ایک لفظ نہیں کہتا۔ جس مسلمان گھرانے نے ایک کمسن بچی کی آخرت سنواری وہ گھرانہ اس بچی کو اپنا بھی لیتا ہے مگر ایک جوان بچی کو نامحرم مرد کے ساتھ رکھنا گناہ عظیم ہے۔ اس بابت سوچنے کے بعد دونوں میاں بیوی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس بچی کو صاحب خانہ جو کہ خود دین کے مدرس بھی ہیں، اپنا لیں۔ یوں اس نو مسلم بچی کا نکاح خاتون خانہ اپنے خاوند سے کروا دیتی ہیں۔
بات یہاں سے شروع ہوتی ہے نہ ہی یہاں ختم۔ بات تو درمیان میں کہیں دبی ہوئی ہے جسے وہ ”احسان فراموش“ نو مسلم لڑکی میرے سامنے لاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اسلام میں چار شادیاں مرد کر سکتا ہے۔ خاتون خانہ اور صاحب خانہ بھی اس کو مانتے ہیں اور صاحب خانہ کو اپنے بعد مدرسہ چلانے کے لئے وارث کی ضرورت ہے۔ جائز ضرورت ہے مگر اللہ نے اس جوڑے کو اولاد نرینہ سے نہیں نوازا۔ صاحب کب سے دوسری شادی کا سوچ رہے ہیں مگر خاتون کو کوئی لڑکی معیار کی نہیں لگ رہی کہ وہ دونوں میاں بیوی کی سوچوں پر پوری اترے مگر اس لڑکی پر اتنا احسان کر چکنے کے بعد خاتون خانہ اس پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔
نکاح کے فوراً بعد ہی تو نو مسلم بچی کا حمل ٹھہر جاتا ہے۔ وہ بچی بہت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ مہربان سوکن، اچھا دیندار شوہر جو اسے دینی تعلیم، تفسیر و حدیث سمجھا رہا ہے اور وہ نو مسلم بچی اپنا شرعی مقام پہنچانتی جا رہی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے فرمائشیں بھی کرتی ہے اور برابری کا وقت اور سلوک بھی مانگتی ہے جو کافی حد تک اسے ملنا بھی شروع ہو جاتا ہے مگر پانچویں ماہ الٹرا ساؤنڈ میں بیٹی ظاہر ہوتی ہے اور بڑی بیگم کو اس ”احسان فراموش“ لڑکی کا اپنی اوقات سے باہر ہونا کھلنا شروع ہو چکا ہے۔
یوں وہ سنیارٹی اور خاندانی مسلمان بیوی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بے کار لڑکی کو گھر سے باہر کروا دیتی ہیں۔ صاحب خانہ محض اس بنیاد پر کہ بڑی بیوی نے سکون غارت کر رکھا ہے اور چھوٹی بھی وارث نہیں دے رہی اسے طلاق کر پرچہ تھما کر باہر کردیتے ہیں۔ اب وہ لڑکی اس حالت میں کہاں جائے۔ وہ کئی دینی مدارس میں پناہ لیتی ہے بالآخر ملتان پہنچ جاتی ہے مگر دین برحق کو نہیں چھوڑتی۔ بچی کو پیدا کرتے ہے۔ مدرسے کی سربراہ اس بچی کو گود لے لیتی ہے اور اسے ہاسٹل میں شفٹ کرکے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے لیتی ہے۔
اور ایک تھی قندیل بلوچ اپنا استحصال اس سماج میں خود کرتی رہی۔ سماج پر ایک بدنما داغ بن کر ظاہر ہوئی۔ داغ تو مٹانا پڑتے ہیں۔ میں نے تین طرح کی خواتین کا ذکرکیا مگر اس کو تحریر میں لاتے ہوئے میری تمام تر توجہ اس نیک خاتون پر رہی جس نے ایک مسیحی بچی کو مسلمان کیا۔ ( وہ بچی الہدیٰ سنٹر میں دنیاوی خوشیوں سے محروم ایک نن کی سی زندگی گزار رہی ہے ) ۔ کیا ہی شان ہے اس کو مسلمان کرنے والی خاتون ایک نومسلم لڑکی کا ذہنی، جسمانی، روحانی، مذہبی استحصال کرکے بھی نیکی کے ملبوس میں مطمئن زندگی گزار رہی ہیں یہاں تک کے رحم مادر کو بھی بازار میں رکھی کسی جنس کی طرح استعمال کرکے پھینک دینے کے بعد بھی میں ان خاتون کا نام تک ظاہر نہیں کر سکتی کیونکہ وہ ایک باپردہ خاتون ہیں اور میرے قلم نے وضو نہیں کیا۔