ایک مرد کو ایک ایسے جرم میں اپنی سزا کو چیلینج کرنا پڑ رہا ہے جو اُسے اس وجہ سے دی گئی کہ اُس نے ایک ایسی عورت کے ساتھ سیکس کی جو ان کے ساتھ ہم بستر تو ہوئی تھی لیکن اس مرد نے عورت سے جھوٹ بولا تھا کہ اُس نے قطع قنات (vasectomy) کا آپریشن کرایا ہوا ہے۔
قطع قنات کے آپریشن سے مرد کی منی کا انزال ختم ہو جاتا ہے۔
’لیکن کسی کو ریپ کے جرم کا مرتکب کیسے کہا جا سکتا ہے اگر اس نے ایک ایسی عورت سے سیکس کی جو رضا مندی کے ساتھ ہم بستری کے لیے تیار ہو گئی؟ اور سیکس کرنے کے اثرات کا سیکس کرنے کے عمل سے کیا تعلق ہے، اگر میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں اب بھی بانچھ ہوں؟‘
سیلی (ایک فرضی نام)، اُس وقت بہت پریشان ہوئی تھی جب اُس نے ایک ڈیٹنگ ویب سائیٹ کے ذریعے ملاقات کرنے والے جیسن لارنس کی جانب سے موصول ہونے والے ٹیکسٹ میسیجز پڑھے۔
’کیا تم سنجیدہ ہو؟‘ اس نے میسیجز پڑھنے کے بعد جواب دیا۔ ’تم حرامزادے ہو۔ تم نے یہ زیادتی میرے ساتھ کیوں کی؟‘
یہ بھی پڑھیے
سیلی سے سیکس کرنے سے پہلے لارنس نے اُسے بتایا تھا اُس نے منی بند کرنے کا قطع قنات کا آپریشن کرایا ہوا ہے اور اس وجہ سے وہ بغیر کونڈوم کے سیکس کرنے کے لیے راضی ہو گئی تھی۔ لیکن وہ راضی نہ ہوتی اگر اسے یہ علم ہوتا کہ لارنس اب بھی منی کا انزال کر سکتا ہے۔ سیلی کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ لارنس عورتوں سے ریپ کرنے کا عادی ہے۔
بیالیس برس کی سیلی جو ایک ماں بھی ہے، مزید اولاد نہیں چاہتی تھی۔ اُس نے مانع حمل کی دوا لی تھی لیکن پھر بھی وہ حاملہ ہوگئی اور پھر اُسے حمل گرانے کی کوفت سے گزرنا پڑا۔
لارنس نے دو مرتبہ سیلی کو ریپ کیا تھا — کیونکہ اس نے دو مرتبہ سیکس کی تھی — اس طرح کے واقعے کی اس سے پہلے برطانیہ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔
ایک سینئر وکیلِ استغاثہ سُو میتھیوز جنھوں نے یہ مقدمہ بنایا تھا، کہتی ہیں کہ ’سیکشؤل اوفینس ایکٹ سنہ 2003 کے سیکشن 74 کہتا ہے کہ برطانیہ میں رضا مندی کا مطلب ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اختیار کے ساتھ انتخاب کرے اور جب وہ انتخاب کرنے کی آزادی رکھتا ہو اور صلاحیت رکھتا ہو۔‘
’قطع قنات کے آپریشن کے بارے میں جھوٹ بولنے کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی سیکس کا نشانہ بننے والی عورت کو درست معلومات کی بنیاد پر انتخاب کرنے کے حق سے محروم کردیا۔‘
لیکن لارنس کے وکیل شون ڈرےکوٹ کہتے ہیں کہ ’اگر اس سزا کا فیصلہ برقرار رہتا ہے تو مسئلہ یہ بنے گا کہ عام افراد، جن میں دونوں مرد اور عورتیں شامل ہیں، جن پر اب سے پہلے کبھی بھی کسی بھی جرم کا الزام نہیں لگا ہے، وہ بھی سنگین قسم کے جنسی جرائم کے الزامات کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔‘
لارنس تنہا نہیں ہے جس نے سیکس کے لیے اپنی ساتھی کے ساتھ دھوکہ دہی کی ہو۔ اس طرح اب جن دیگر افراد نے اس طرح کی دھوکہ دہی کی ہو گی ان کے خلاف بھی مقدمہ چل سکے گا۔
کیا کنڈوم کا استعمال نہ کرنا ریپ کہلا سکتا ہے؟
امریکہ کی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کیلی ڈیوِس نے ’کنڈوم کے استعمال کے خلاف مزاحمت‘ کے بارے میں 21 برس سے 30 برس کے مرد اور عورتوں کی آرا کا سروے کیا ہے۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ یہ جان سکیں کہ جب ایک پارٹنر کنڈوم استعمال کرنا چاہتا ہے تو دوسرے اس سے گریز کرنے کے لیے کیا کیا بہانے پیش کرتا ہے۔ سروے کے 313 مردوں میں سے 23.4 فیصد نے اقرار کیا کہ انھوں نے یہ گریز چودہ برس کی عمر سے لے کر اب تک کم از کم ایک مرتبہ دھوکے سے کیا۔
سب سے زیادہ دھوکہ اس بارے میں تھا کہ جب دخول کے بعد منی کا انزال ہونے لگے گا تو مرد ساتھی اپنا عضوِ تناسل عورت کی فُرج سے باہر نکال لے گا جب کہ اُس کا حقیقت میں ایسا ارادہ نہیں تھا (19.9 فیصد)۔ اگلے درجے کے وہ واقعات تھے جن میں سیکس کرنے والوں نے جنسی اتصال سے پیدا ہونے والی متعدی بیماریوں کے بارے میں جھوٹ بولا تھا (9.6 فیصد)۔
ڈاکٹر کیلی ڈیوِس اور ان کی ٹیم نے نوجوان مردوں کے گروہوں پر بھی توجہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان مردوں نے اپنے لیے ایک حد کا تعین کیا تھا کہ وہ اس عمل کے دوران اس حد تک جسمانی طاقت کا استعمال تھا۔ اس حد کا مطلب ہے کہ کسی بھی طرح کا کام جو اس عمل کے دوران کے کھیل ہوتا ہے، کیونکہ ان گروہوں میں شامل نوجوان سیکس کو اسی زاویے سے دیکھتے ہیں۔‘
سروے میں جن 530 عورتیں سے سوال کیا گیا ان میں سے 6.6 فیصد نے اقرار کیا کہ انھوں نے 14 برس کی عمر سے لے کر اب تک کم از کم ایک مرتبہ جھوٹ بولا تھا، جس میں سب سے عام حیلہ یہ تھا کہ وہ مانع حمل طریقہ استعمال کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ڈاکٹر ڈیوس اور ان کے ساتھیوں نے سیکس کے دوران ’خفیہ چوری‘ پر بھی ریسرچ کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کے دوران کنڈوم استعمال کرنے کا وعدہ کیا گیا ہو لیکن سیکس کے دوران کسی وقت دھوکہ دہی اور چپکے سے کنڈوم کو ہٹا لیا گیا ہو۔ اس مرتبہ بھی 21 سے 30 برس کے مردوں کا سروے کیا گیا۔ سروے میں شامل 626 مردوں میں سے 10 فیصد نے اقرار کیا کہ انھوں نے 14 برس کی عمر سے لے کر اب تک کم از کم ایک مرتبہ ’خفیہ چوری‘ ضرور کی۔
ڈاکٹر کیلی کہتی ہیں کہ ’مجھے دھچکا لگا جب میں نے دیکھا کہ تقریباً 10 فیصد مردوں نے ’خفیہ چوری‘ کرنے کا اقرار کیا جبکہ اوسطاً ان مردوں نے تین مرتبہ سے زیادہ مرتبہ دھوکا دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کئی نے صرف ایک مرتبہ ایسا نہیں کیا بلکہ زیادہ تر کئی کئی مرتبہ ایسا کر رہے ہیں۔ یہ بریشان کن بات ہے۔‘
12 فیصد عورتوں نے سروے میں بتایا کہ انھں سیکس کے دوران یہ معلوم ہو چکا تھا کہ ’خفیہ چوری‘ ہو چکی ہے، جبکہ باقیوں کو شاید یہ پتہ ہی نہیں چلا تھا کہ ایسا ہو چکا ہے۔ اکثر افراد اس ’خفیہ چوری‘ کو ریپ نہیں سمجپتے ہیں، لیکن سانڈرا پال، ایک قانون دان جو جنسی تعلقات میں بد کرداری کے معاملات پر نظر رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ برطانوی قانون اس خفیہ چوری کو جرم سمجپتا ہے۔
اس معاملے کو جولیان اسانژ کے ملک بدری کے مقدمے میں برطانوی جج زیرِ غور بحث لائے تھے۔ اور اس مقدمے کے فیصلے میں انھوں نے کہا تھا برطانیہ میں کنڈوم کے بغیر سیکس ایک جرم تصور کیا گائے گا اگر دوسرا پارٹنر اس لیے سیکس کرنے کے لیے تیار ہوا ہو کہ کنڈوم کا استعمال ہو گا۔
اگر مرد انزال کے وقت عصوِ تناسل فرج سے باہر نہ نکالے؟
’ریپ کرائیسس‘ نامی تنظیم کی ترجمان کیٹی رسل کا کہنا ہے کہ انزال سے پہلے عضوِ تناسل کو فُرج نکال لینے کے بارے میں جھوٹ بولنا قانونی طور پر ریپ کے زُمرے میں آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک مثال ہے کہ آپ نے سیکس کرنے کے لیے ایک شرط رکھی لیکن دوسرے نے اس شرط کو توڑ دیا جو کہ سیکس کرنے کی رضا مندی سے جڑی تھی۔‘
کیٹی پال کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی ایک انتظامی عدالت اس طرح کے ایک واقعے پر اپنا فیصلہ سنا چکی ہے لیکن وہ واقعہ شوہر اور بیوی کا درمیان تھا۔ ’وہ مزید بچے نہیں چاہتی تھی اور سیکس کے لیے اس شرط پر راضی ہوئی تھی کہ اس کا شوہر انزال سے پہلے باہر نکال لے گا۔ وہ بظاہر راضی ہو گیا لیکن اس بات کے کافی شواہد ملے کہ انزال کے وقت اس کا باہر نکالنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔‘
برطانوی استغاثے، کراؤن پراسیکیوشن سروس، نے شوہر کے خلاف مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا، اس پر بیوی نے ان کے فیصلے پر انتظامی عدالت میں نظرِ ثانی کی درخواست دی۔ ’انتظامی عدالت نے بہت واضح طور پر کہا کہ اُن کی نظر میں اس بات کے کئی دلائل ہیں کہ یہ مقدمہ چلنا چاہئیے۔ کیونکہ اس واقعے میں جو ہوا تھا وہ ایک جرم کی تعریف میں آتا ہے، عورت کی مشروط رضامندی کی نفی ہو گئی تھی جب مرد کا باہر نکالنے کا ارداہ ہی نہیں تھا۔‘ مس پال کے مطابق پھر ’یہ مقدمہ استغاثہ کے واپس بھیج دیا گیا تاکہ وہ انتظامی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں نظرِثانی کرے۔‘
بی بی سی نے برطانوی استغاثے کراؤن پراسیکیوشن سروس سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا اس شوہر کے خلاف مقدمہ چلا تھا۔ لیکن استغاثہ معلومات فراہم نے کر سکا۔
کیا متعدی جنسی بیماریوں کے بارے میں دروغ گوئی ریپ کے زمرے میں آتی ہے؟
سانڈرا پال کا خیال ہے کہ متعدی جنسی بیماریوں کے بارے میں جھوٹ بولنا ایک ایسا فعل ہے جس کے بارے میں قانون واضح نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ مشکل ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ اب تک قاونون سازی کی عدم موجودگی میں عدالتی فیصلوں کی بدولت آگے بڑھ رہے ہیں جیسا کہ لارنس کے مقدمے کا فیصلہ، تو ممکن ہے کہ اس طرح کا جھوٹ بھی جرم کےدائرے میں شامل کرلیا جائے۔‘
حال ہی میں ایسے چند ایک مردوں پر مقدمے چلے ہیں جنھیں ایچ آئی وی وائرس لگا ہوا تھا، جن میں ڈیرِل رو، اینٹونیو ریس-مینانا اور ایرون سٹکلِف کے نام شامل ہیں۔ لیکن ان پر جسمانی نقصان پہنچانے کے جرم کے تحت مقدمے چلے تھے نہ کہ جنسی جرم یا ریپ کے جرم کے تحت۔
اگر عورت مانع حمل ادوایات کے بارے میں جھوٹ بولے؟
لارنس کے وکیل بیرسٹر ڈیوڈ عمانیؤل اپنے موکل کے قطع قنات آپریشن کے بارے میں جھوٹ کا موازنہ عورت کے مانع حمل ادویات کے استعمال سے کرتے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ اگر لارنس کو بانچھ پن کے بارے میں جھوٹ بولنے پر ریپ کے جرم والی سزا ہو سکتی ہے تو پھر اس منطق کے تحت ایک عورت کو بھی اس طرح کے جرم کا ارتکاب کرنے پر سزا سنائی جاسکتی ہے۔
انگلینڈ اور ویلز کو موجودہ قوانین کے مطابق، ایک عورت پر ریپ کا مقدمہ اس لیے نہیں چلایا جا سکتا ہے کیونکہ ریپ کا جرم قانون کی نظر میں اس وقت سرزد ہوتا ہے جب عضوِ تناسل کا فُرج میں دخول ہوتا ہے۔ سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں بھی ریپ صرف عضوِ تناسل سے ہوتا ہے۔
کیٹی رسل، ریپ کرائیسس کی ترجمان، کو قطع قنات کے مانع حمل ادویات کے موازنے کی مثال پر اعتراض ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مانع حمل طریقوں اور حمل ٹھہر جانے سے وابسطہ مسائل کی وجہ سے عورت کا جسم اس قسم کے جھوٹ کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ دونوں ایک جیسی مثالیں نہیں ہیں کیونکہ ایک عورت کو حاملہ ہونے کے اثرات اور پھر حمل گرانے جیسے اثرات سے نمٹنا پڑتا ہے، جبکہ جو مثال دی گئی ہے اس میں ایک مرد کو جھوٹ بولنے کی وجہ سے کسی اثر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔‘
لیکن مس پال کو بہرحال یقین نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اصل معاملہ یہ ہے کہ ایک جھوٹ کس حد تک ایک رضا مندی کی نفی کرتا ہے۔ اگر ان حالات میں ایک مرد کو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بچے کا باپ بن گیا ہے تو پھر اس پیش رفت کے جو بھی نتائج بنتے ہیں وہ سامنے آئیں گے۔‘
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں دوہرا معیار ہے۔ زندگی کے کئی شعبوں میں ہم برابری حاصل کرچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں انتی ہی عزت ملے جتنی کہ ایک مرد کو دی جاتی ہے۔ جہاں ایک جھوٹ جرم کے زمرے میں آتا ہے تو اس کی سزا بھی ہر موقع پر ایک جیسی ہونی چاہئیے، لیکن میرے خیال میں مسئلہ یہی ہے کہ ہم کچھ باتوں کو مستثنیٰ قرار دے دیتے ہیں جہاں ہمیں صرف عورت ہونے کی وجہ سے تحفوظ حاصل ہے۔‘
اگر کوئی اپنی صنف کے بارے میں جھوٹ بولے تو پھر کیا ہوگا؟
ایسے کئی واقعات ہیں جن میں عورتوں نے ایسے مردوں کو جیل میں ڈلوا دیا ہو کیونکہ ان کے دوسری عورتوں کے ساتھ تعلقات تھے یا تیسری صنف کے ایسے افراد جنھوں نے اپنی اختیاری صنف کے بارے میں اپنی پارٹنر عورتوں سے جھوٹ بولا تھا۔ ایسے واقعات میں گائل نیولینڈ، جسٹِن میکنلی اور کائرن لی کے نام آتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات میں ڈِلڈو یعنی مصنوعی عضوِ تناسل، کا استعمال ہوتا ہے اور عضوِ تناسل کے دخول سے ریپ کے جرم کا ارتکاب ہوتا ہے، اس لیے ایسے واقعات میں جنسی حملہ یا دخول کے ذریعے زیادتی کا حملے جیسے جرائم کی فردِ جرم عائد کی گئی۔ جسٹِن میکنلی کے مقدمے میں جس میں یہ عورت مرد کا روپ دھارے ہوئے ایک اور لڑکی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کیے ہوئے تھی۔ اس کے مقدمے میں جج نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اس سے ’تعلقات کی رضا مندی کی اس کے دھوکے کی وجہ سے نفی ہو گئی تھی۔‘
بہرحال اس قسم کے واقعات جو جنس کے حوالے سے دھوکہ دہی کہ زمرے میں آتے ہیں، جن سے جنس بتانے کے اضطراب اور انسانی حقوق کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں، اور آیا تیسری صنف سے تعلق رکھنے والے فرد کو اپنی اختیاری صنف کے بارے میں اپنے پارٹنر کو بتانا ضروری ہے۔ قانون کے پروفیسر اور بیرسٹر ایلیکس شارپ جو گزشتہ بیس برسوں سے تیسری صنف سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کی یہی تشویش ہے۔
پروفیسر شارپ کہتی ہیں کہ ’وہ لوگ جنپیں جنسی الزامات کے تحت مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا ان میں زیادہ تر ایسے افراد تھے جن کی صنف کا تعین کیا جانا مشکل تھا، اس لیے یہ ایک مسئلہ ہے کہ ان میں ایک ہی قسم کی صنف کے افراد کو مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ایک تیسری صنف کا فرد جو مرد نظر آتا ہے اسے مرد ہی سمجھا جائے گا کیونکہ وہ مرد ہے۔
یہ بھی پڑھیے
دوسری قسم کی دروغ گوئیوں کے متعلق کیا قوانین ہیں؟
لوگ جنسی تعلقات بنانے یا سیکس کرنے کے لیے ہر قسم کا جھوٹ بولتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنی عمر کے بارے میں، شادی شدہ ہوتے ہوئے غیر شادی شدہ ظاہر کرنا، یا اپنی حیثیت سے زیادہ اپنے آپ کو امیر بنا کر پیش کرنا۔ تاہم اس قسم کے واقعات عموماً عدالتوں تک نہیں پہنچے ہیں۔ لہٰذا عدالت میں اب تک اس قسم کے جھوٹ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کے کیا ایسے جھوٹ سے رضامندی کی نفی ہوجاتی ہے۔
کئی عورتوں کے ایسے خفیہ پولیس افسران سے جنسی تعلقات رہے ہیں جو سماجی کارکنوں کے طور پر تحریکوں میں شامل ہوتے ہیں۔ اس قسم کی ایک عورت کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس ’افسران کی ایک ٹیم ہے جو ریپ کرتی ہے‘ کیونکہ یہ افسران جاتے ہیں کہ ان عورتوں سے انھوں نے صحیح معلومات دے کر ان کی رضامندی حاصل نہیں کی۔
محکمہ پولیس نے ان حالات میں افسران کا نشانہ بننے والی عورتوں کو عوضانے کے طور پر رقم ادا کی ہے لیکن برطانوی استغاثے یعنی کراؤن پراسیکیوشن سروس نے یہ کہہ کر ان افسران کے خلاف کاروائی کرنے سے انکار کردی کہ ’اس طرح کے حالات میں دھوکہ راضا مندی کی نفی نہیں کرتا ہے۔‘
مس پال کہتی ہیں کہ اس بارے میں مزید رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ایک جھوٹ ایک رضا مندی کی نفی کرتا ہے اور امید ہے کہ لارنس کی اپنی سزا کے خلاف کورٹ آف اپیل میں دائر کی گئی اپیل پر فیصلے ایسے رہنماہ اصول وضع کردیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بالآحر اس معاملہ میں قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ میرے خیال میں کونڈوم استعمال نہ کرنا جب آپ نے وعدہ کیا ہو کہ اس کا استعمال کریں گے ایک لحاظ سے قانون کی نظر میں ایک واضح معاملہ نہیں ہے بنسبت اپنی عمر کے بارے میں جھوٹ بولنے کے فعل سے۔
مس پال کہتی ہیں کہ اب مسئلہ یہ بنے گا کہ ’واضح قسم کے قانون کی عدم موجودگی میں ایسے رہنما اصول بنانا ہے کہ دونوں کے درمیان کیا طے پایا، اور عدالتی نظام کس طرح ان فیصلوں کا تعین کرتا ہے؟‘