سکھر کے قریب ایک اور چھوٹا سا شہر ہوتا تھا یا معلوم نہیں گاؤں تھا جس کا نام باگڑ جی تھا۔ خود تو کبھی گئے نہیں بس سنتے تھے کہ وہاں پر ایک پیر صاحب کا مزار ہے جس کے باہر درخت ہیں اور جو بھی کسی بھی وجہ سے ذہنی مریض ہو تو اس کو درخت سے باندھ آتے تھے تاکہ وہ ٹھیک ہوجائے۔ اس بات کا مجھے سخت افسوس ہے اور اسی لئے یہ مضون لکھ رہی ہوں تاکہ بلاوجہ ایسے الٹے سیدھے طریقے سے لوگوں کا علاج نہ کیا جائے بلکہ مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، اور ہر کسی کو وہ توجہ ملے جس کا وہ حقدار ہے۔
دنیا میں کتنے لوگ ٹرانس جینڈر ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ بہت سے لوگ خاموشی سے خود کشی کرلیتے ہیں اور کافی دہری زندگی گذارتے ہیں۔ ماسا چیوسٹس اور کیلیفورنیا میں کیے گئے سروے سے معلوم ہوا کہ امریکہ میں تقریباً 7 لاکھ افراد ٹرانس جینڈر ہیں جو آبادی کا اعشاریہ تین فیصد بناتے ہیں۔ اصل تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد دنیا کے تمام ممالک میں ایک جیسی ہے۔
ٹرانس جینڈر افراد میں طبی سہولیات کی فراہمی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہارمون ایجاد نہیں ہوئے تھے، یہ افراد یا تو محض دوسری جنس کے ملبوسات پہنتے تھے یا سرجری کرواتے تھے۔ آج کل ٹیسٹواسٹیرون اور ایسٹروجن کے مہیا ہونے کے باعث ان مریضوں کا ہارمونز سے علاج ممکن ہوا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو باہر سے بھی ویسا ظاہر کرسکیں جیسا وہ اندر سے محسوس کرتے ہیں۔ کوئی بھی دو مریض ایک جیسے نہیں ہوتے اور ہر کسی کا علاج ان کے انفرادی حالات پر مبنی ہے۔
آج کے مضمون میں ٹرانس جینڈر کے علاج سے متعلق کچھ پریکٹیکل باتیں شامل کی گئی ہیں۔ جنس کی شناخت کوئی بھی ہو، سب انسانوں کے حقوق برابر ہیں اور ان کو اپنی زندگی میں خوشی اور کامیابی حاصل کرنے کا حق ہے۔ شائد کچھ لوگ اپنے ذہن میں یہ سمجھتے ہوں کہ ٹرانس جینڈر افراد کوئی نہایت خوفناک لوگ ہیں یا وہ اچھوت ہیں یا ان میں کوئی بیماری ہے جو آپ کو لگ جائے گی، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ وہ بالکل باقی انسانوں کی طرح ہی ہیں بلکہ جنسی شناخت کوئی ایسی چیز نہیں جس کی بنیاد پر دنیا میں مواقع یا سہولیات میں تفریق کی جائے۔ ٹرانس جینڈرز کا تذکرہ کئی مختلف تہازیب اور ادوار میں ملتا ہے۔ ریڈ انڈین پانچ جنسیں پہچانتے تھے۔ اور ان کے کلچر میں ہم جنس پسند افراد کو دو روحیں رکھنے والے انسان سمجھا جاتا تھا۔
صدر اوبامہ میری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک غیر معمولی قابل انسان ہیں اور افسوس کی بات کہ ایک عام امریکی ان کی بات پوری طرح سمجھنے میں ناکام ہے جس نے ٹرمپ کو چنا۔ ایک آدمی کھڑا ہوکر آپ کے سامنے کیا کہہ رہا ہے اور اس کی بات میں کتنا وزن ہے وہ آپ کو تب پتا چلتا ہے جب ہم خود کو ان موضوعات میں تعلیم یافتہ کریں ۔ صدر اوبامہ تاریخ ، عالمی مذاہب، ماحولیات کی خرابی، انسانی حقوق، سیاست، سائنس، قانون اور نسلی امتیاز جیسے پیچیدہ مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ کی معلومات یا دنیا کی سمجھ میں گہرائی نہیں اور وہ خالی اور کھوکھلے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بندروں پر ریسرچ کرنے والے کچھ لوگوں نے ان کے رویے کو اس بندر سے تشبیہ دی ہے جو سینہ کوٹ کوٹ کر دوسروں کو للکارتا ہے اور سب سے بڑا نظر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ ملک کے باشعور افراد ٹرمپ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں۔ ان دو آدمیوں کی مثال اس لئیے دی کیونکہ جہاں صدر اوبامہ نے 2015 میں اپنے اسٹیٹ آف دی یونین کے خطاب میں یہ کہا کہ “ہم امریکی ہونے کی حیثیت سے انسانی عظمت کا احترام، اظہار خیال کی آزادی اور سیاسی قیدیوں کا دفاع کرتے ہیں اور خواتین، مزہبی اقلیتوں، ہم جنس پسند یا ٹرانس جینڈر افراد کے استحصال کی مذمت کرتے ہیں۔” وہاں مسٹر ٹرمپ نے ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف کئی احکامات جاری کئیے۔
یہاں پر یقیناً کوئی بھی سوچنے والا یہ نکتہ اٹھائے گا کہ امریکہ کا رویہ امریکہ کے اندر رہنے والوں اور باہر کے لوگوں کے لئیے مختلف ہے۔ اگر اس کی وجوہات پر غور کریں تو سمجھ جائیں گے کہ طاقت ور لوگ ہر جگہ حیلے بہانوں سے دوسرے لوگوں کو اپنے فائدے کے لئیے دباتے ہیں۔ امریکہ میں لوگ خاص کر خواتین بہت تعلیم یافتہ ہیں اور آبادی کا ایک فیصد قانون دان ہے اس لئیے وہ خود اپنی حکومت کو سیدھا رکھتے ہیں۔ جن ممالک میں لوگ پڑھے لکھے نہ ہوں یا ایسے جذباتی ہوں جن کو آسانی سے چکر دیا جا سکتا ہو تو وہاں کمزور کا استحصال ہوتا ہے۔ ممالک کے درمیان بھی یہی حالات ہیں۔ حالانکہ ہمیں اپنی طاقت کو دوسرے لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لئیے استعمال کرنی چاہئیے۔
میرا ایک مریض فیمیل ٹو میل ٹرانس جینڈر لڑکا جو نیوکلیر فزسسٹ بننا چاہتا تھا اور آرمی میں اپلائی کررہا تھا، اس کو اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑا۔ اب وہ چار سال انتظار کرے گا تاکہ ٹرمپ کی حکومت ختم ہو اور اس کا کیریر دوبارہ سے پٹڑی پر چڑھ سکے۔ یہاں قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال انسان میں اور ایک متعصب اور تنگ نظر انسان میں کیا فرق ہے۔ اور ہم جس طرح کی حکومت چنیں اس سے ہماری عوام اور ایک عام انسان کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ کس قسم کے انسان دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں مدد کرتے ہیں اور کس قسم کے انسان دنیا کو بدتر جگہ بنانے پر کام کرتے ہیں۔ ہم خود کو کس خانے میں فٹ کریں وہ ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک بہتر نہیں بن سکتا جب تک انسان انفرادی طور پر تعلیم یافتہ اور باشعور نہ ہوں۔ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے لئیے کالج ایجوکیشن کی اچھی خبر نظر سے گذری۔ یہ لوگ اگر پڑھ لکھ کر کامیاب ہوئے تو وہ اپنے اردگرد معاشرے کو بھی بہتر بنانے میں اپنا ہاتھ بٹا سکیں گے۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔
ٹرانس جینڈر کا علاج کرنے کے لئیے ہم نے میسر معلومات جمع کرکے اپنے کلینک میں پانچ نکاتی پروگرام ترتیب دیا ہے جو کہ مندرجہ زیل ہے۔
1- ہمارے کلینک میں صرف ان لوگوں کو ٹرانس جینڈر کے مریض کے طور پر قبول کیا جاتا ہے جن کی عمر 18 سال سے زیادہ ہو، انہوں نے سائکائٹرسٹ سے مشورہ لیا ہو، ان میں جینڈر ڈسفوریا کی تشخیص ہوچکی ہو اور وہ اپنی مرضی کی جنس کے لحاظ سے قریب ایک سال سے زندگی گذار رہے ہوں۔
2- جب یہ طے کرلیا جائے کہ یہ مریض قانونی لحاظ سے بالغ ہیں اور اپنے ہوش وحواس کے ساتھ یہ بڑا فیصلہ کر چکے ہیں جس کے بارے میں ان کو بتا دیا جاتا ہے کہ مستقل ہے یعنی واپسی کا راستہ بند ہوجائے گا تو پھر ہارمونز سے ان کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔ جو میل ٹو فیمیل ہوں، ان کو ایسٹروجن دیتے ہیں اور جو فیمیل ٹو میل ہوں ان کو ٹیسٹو سٹیرون۔ اگر ان کو بچے پیدا کرنے میں دلچسپی ہو تو اپنے اسپرم یاOVA اووا فریز کرواتے ہیں تاکہ مستقبل میں استعمال کرسکیں۔ ہارمونز سے علاج شروع کرنے کے بعد تقریبا تمام مریضوں سے یہ سنا کہ ہمارا دماغ سکون محسوس کررہا ہے اور ہمارے اندر ایک تضاد ختم ہوگیا ہے۔
3- مناسب کینسر اسکرین ضروری ہیں جس کے لئے یاد رکھنا چاہیے کہ ایک انسان کے اندر کون سے اعضاء ہیں۔ اگر آپ ایک فیمیل ٹو میل آدمی کو دیکھ رہے ہوں تو شائد یہ یاد نہ رہے کہ ان میں اووری یا یوٹرس کا کینسر ہوسکتا ہے۔ ایک ریڈیالوجسٹ نے رپورٹ لکھی کہ ٹیومر ہے کیونکہ ان کو نہیں معلوم تھا کہ یہ مریض فیمیل ٹو میل ٹرانس جینڈر ہے۔ اسی طرح میل ٹو فیمیل ٹرانس جینڈر میں پراسٹیٹ کینسر کی اسکرین کرنا ہوگی۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اچھی طرح سے میڈیکل ریکارڈ رکھنا اور مناسب چیک اپ کتنا ضروری ہے۔
4- ٹرانس جینڈر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ان مریضوں کا واحد مسئلہ ہے۔ تمام مریضوں کو صحت مندانہ لائف اسٹائل گذارنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جن میں غذا، باقاعدہ ورزش اور ریگولر ویکسینیں شامل ہیں۔ جنسی تعلقات سے ہونے والی بیماریوں کے بارے میں بھی کاؤنسلنگ ضروری ہے اور جن بیماریوں کی ویکسین موجود ہیں، ان کو لگوانے کا مشورہ مناسب ہے جیسا کہ ایچ پی وی۔ دو ہفتے پہلے ایک ٹرانس جینڈر خاتون میں تھائرائڈ کی بیماری تلاش کی گئی۔ اس لئیے ٹرانس جینڈر مریضوں کا تفصیلی معائنہ اور علاج ضروری ہے۔
5- سرجری۔ دنیا میں سب سے بڑا ٹرانس جینڈر سرجری کا سینٹر تھائی لینڈ میں ہے جہاں ہر سال تین ہزار سرجریاں کی جاتی ہیں اور دنیا بھر سے لوگ جاتے ہیں۔ ہم یہ مشورہ کسی کو بھی نہیں دیتے کہ امریکہ سے باہر جا کر سرجری کروائے۔ ایک مریضہ اکیلی چلی گئیں اور میل ٹو فیمیل سرجری کروا کر آئیں۔ وہ ایک بہادر خاتون ہیں۔ جس علاقے میں بھی مریض ہوں، وہاں کون سے اچھے سرجن ہیں جو یہ سرجری کرسکتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے۔
جن لوگوں نے اپنی دکھی کہانیاں ای میل کی ہیں، مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ خاموشی سے خودکشی کرنے کے بجائے آنے والی نسلوں کا خیال کرکے کچھ روشنی پھیلانے پر کام کریں۔ وہ کام کیا ہوسکتا ہے؟ کم از کم ناکام شادیاں اور بچے پیدا کرنا بند کیے جا سکتے ہیں۔ قریب ترین فیملی ممبرز کو سچ بتانے کی کوشش کریں۔ ماؤں سے شروع کریں۔ ماں کا دل بڑا ہوتا ہے وہ شائد آپ لوگوں کو سپورٹ کریں۔