آج کے کالم کی شروعات ایک سوال سے کرتے ہیں فرض کیجئے آپ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گاڑیوں کے صور اسرافیل سے مشابہہ ہارن اور چلچلاتی دھوپ میں تپتی گاڑی میں بیٹھے آپ ٹریفک کے فرسودہ نظام کو کوس رہے ہیں کہ اچانک میک اپ سے تُھپا ایک چہرہ آپ کے سامنے آتا ہے اور ناز سے یا مان سے آنکھیں پٹپٹا کر آپ سے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ گھبرائیے مت یہ مخلوق بنائی تو اللہ تعالی نے ہی ہے لیکن اسے اس مقام تک پہنچانے کا سہرا ہم سب کے سر پہ ہے۔ جب آپ غُصے سے بلبلاتے ہوئے اُسے بھگانے کی کوشش کرتے ہیں تو مخالف ماتھے پر کچھ بل ڈالے اپنے مخصوص انداز میں آپ کو بددعا دیتا ہے۔ کہ ”اللہ تیرے گھر وچ وی میرے ورگا پیدا کرے‘‘ اور بس آپ کی سانس وہیں کی وہیں رک جاتی ہے اب آپ کا پہلا ردعمل کیا ہو گا۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے تو ایک خالص پاکستانی اگلی سانس لیے بغیر اپنی جیب خالی کر دے گا۔ اجی بددعا بھی تو کوئی معمولی نہیں تھی۔ اب آپ کی جانے بلا کہ میک اپ زدہ یہ چہرہ واقعی میں اُس مظلوم جنس کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے یا کوئی بے روزگار نوجوان ہے جو سوانگ بھرے اس معاشرے سے اپنا حصہ زبردستی وصول کر رہا ہے۔ اب تک آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہاں کس کا ذکر ہو رہا ہے۔ آپ چاہیں تو معزز ترین انداز سے پُکاریں پھر بھی معاشرتی نفسیات کے باعث جو تصور اُبھرتا ہے وہ ہرگز خوش کن نہیں ہے۔
دس ہزار کی آبادی رکھنے والی یہ کمیونٹی پاکستان کے معاشی و معاشرتی نا انصافی کی چکی میں پستی ہوئی مظلوم ترین مخلوق ہے۔ ایسی جنس جس کے مرنے جینے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں سوائے اس کے کہ یہ لوگ ہماری شادی بیاہ اور خو شی کی تقریبات کو رنگین بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیا خواجہ سراؤں کا کام محض ہماری دل پشوری کرنا ہے؟ کیا معاشرے میں اُنکا حصہ صرف ناچ گانے کے ذریعے وصول ہوسکتا ہے؟
ان خواجہ سراؤں میں سے اصل جانے کتنے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو نجانے کن مجبوریوں کے تحت اپنی عزت نفس کو ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ لیکن ان کے حالات آخر کیسے اتنے بگڑے کہ ہم ان کی کسی باعزت شعبے میں موجودگی کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے اقتدار اعلی پر فائز کسی ایماندار سیاستدان کو۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ نے صرف جنوبی ایشیا میں ہی تو یہ جنس پیدا نہیں کی ہو گی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں موجود ٹرانس جینڈرز ہمیں صرف خواجہ سرا کے روپ میں نظر آتے ہیں۔
اس بات کی جڑ تک پہنچنے کے لئے ہمیں محض دو ڈھائی صدیاں پیچھے جانا ہو گا جب گورے برصغیر پر قبضہ جمانے کے بعد مُغلوں کے گریبان کو آنے لگے تھے۔ گورے چٹے انگریز وں نے جب درباروں میں قدم رنجہ فرمایا تو وہ اس جنس کو وہاں دیکھ کر نہایت جزبز ہوئے۔ اُس زمانے میں اس جنس کو برصغیر میں نہایت کارآمد سمجھا جاتا تھا۔ مردانہ اوصاف رکھنے والے خواجہ سراؤں کو مغلانیوں کے احرام کی حفاظت پر تعینات کیا جاتا جبکہ کئی خوش مزاج وخوش پوش خواجہ سراؤں دربار میں بادشاہ سلامت اور درباریوں کی روزمرہ کی مصروفیات کو اپنے چٹکلوں سے رنگین کیا کرتے تھے۔ انگریزوں کی آمد پر جہاں مُغلوں کو دیس نکالا ملا وہیں ان بیچاروں کو بھی گلیوں میں رُلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
جہاں آپ کے میرے جیسے غریب لوگ موجود تھے جنہوں نے درباروں میں نازوں سے پلنے والی اس مخلوق کو دیکھنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ خواجہ سرا صرف محلات میں ہی پائے جاتے تھے باہر بھی ان کی محدود سی تعداد موجود تھی لیکن درباروں سے بڑی تعداد میں نکلنے والے خواجہ سرا کسی اور کام سے انجان ہونے کے سبب ناچ گا کر اپنی روزی روٹی کمانے لگے۔ کسی بھی قسم کی تفریح سے محروم لوگ ان پر پیسہ خرچنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے کئی لوگ بڑی تعداد میں اس کمیونٹی کا حصہ بن گئے۔ رفتہ رفتہ لوگوں میں غلط اعتقاد جنم لینے لگے۔ کسی مذہب نے ان کو دیوی کا درجہ دے دیا تو کوئی ان کی موجودگی کو ہی بددعا سمجھنے لگا۔
ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو آنکھیں بند کر کے ان باتوں پر یقین کرتے ہیں کہ کسی محنث کی پیدائش کی صورت میں اُس کے رونے کی آواز خواجہ سراؤں کے گُرو کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے جس کی بنا پر یہ بچے کی ملکیت کا دعوی کرنے آموجود ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ماں باپ ایسے بچے کی پیدائش پر اتنے شرمندہ ہوتے ہیں کہ خود ہی اس معصوم کو مارنے سے گریز نہ کریں۔ جہالت ہماری رگوں میں خون کی طرح ایسے دوڑ رہی ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ خواجہ سرا کی بددعا سے حد درجہ خوف میں آجاتے ہیں۔ فکر مت کریں جناب اگر ہمارے انتہا درجے کے گناہوں کی صورت میں وہ خدا ہم پر عذاب نازل نہیں کرتا تو وہ ہرگز بھی نا انصاف نہیں ہے کہ سو دو سو روپے کے پیچھے دی جانے والی بددعا کو قبول کر لے۔
بہتر تو یہ ہے کہ ان کی بددعا سے ڈرنے کی بجائے ان کے ساتھ روا رکھے گئے بد ترین معاشرتی سلوک اور نا انصافی سے ڈرئیے۔ آج بھی ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی خواجہ سرا جسمانی تشدد و بے عزتی کا نشانہ بنتا ہے لیکن ہمارے کانوں پر جون تک نہیں رینگتی۔ ہم لوگ اس قدر اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں کہ نہ تو ان کی چیخیں ہمیں سنائی دیتی ہیں نہ ہی ان کے آنسو دکھتے ہیں۔ اجتماعی جہالت کا یہ عالم ہے کہ وطن عزیز میں بہت سے لوگ اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ مرد و عورت کی علاوہ کوئی تیسری جنس بھی پائی جاتی ہے۔ اور اگر پائی جاتی ہے تو اس کے بھی کچھ حقوق ہوں گے۔ ایسے لوگوں کی جہالت کو سات توپوں کی سلامی کے بعد قرآن پاک سے ایک آیت کا حوالہ دیا جانا نہایت ضروری ہے۔
۔ ”تمام بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی وہ جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے۔ یا دونوں عطا کرتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ وہ تو جاننے والا اور قدرت والا ہے ‘‘
Surah ash shuraa [49.50]
Surah ash shuraa [49.50]
پچاسویں آیت میں دونوں عطا کر دینے سے مراد ایک ایسا انسان ہے جو مردانہ اور زنانہ دونوں اوصاف رکھتا ہو جسے محنث کہا جاتا ہے۔ بچے کے پیدا ہونے کی صورت میں یہ مان باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچہ اگر تیسری جنس سے تعلق رکھتا ہے تو اس میں جس صنف کے زیادہ اوصاف پائے جاتے ہیں اُس صنف کے مطابق اُس کی پرورش کریں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملازمتوں میں ان کے لیے کوٹے مقرر کیے جائیں تاکہ اس کمیونٹی میں پڑھنے لکھنے کا رحجان پیدا ہو سکے۔ صرف اسی صورت میں سڑکوں پر بے فائدہ پھرنے والی اس جنس کو ملک وقوم اور خود اُنکے وجود کے لیے کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔ اور کالم کے اختتام پر آپ سے گزارش ہے کہ دوبارہ اپنے بیٹے یا بیٹی کا سکول میں داخلہ کرواتے وقت سکول انتظامیہ سے داخلہ فارم میں جنس کے خانے میں تیسری جنس کی آپشن رکھنے کی درخواست کریں تاکہ یہ کمیونٹی بھی تعلیم حاصل کر کے اس معاشرے کا فعال رُکن بننے کی تگ و دو کر سکے۔