اس کے آنے کا پتا خوشبو دیتی تھی۔ وہ جہاں سے گزرتی ہوا میں مسحور کن مہک پھیل جاتی۔ جب وہ یونیورسٹی میں قدم رکھتی تو نہ جانے کتنی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی تھیں یہ اور بات ہے کہ دیکھنے والے اسے چوری چوری دیکھتے تھے۔ سب کو اس کے مزاج کا پتا تھا۔ وہ جس قدر حسین تھی اتنی ہی بے باک اور نڈر بھی تھی۔ اپنی طرف غلط انداز نظروں سے دیکھنے والے کی طبیعت ایسی صاف کرتی تھی کہ اس کے بعد وہ اسے دیکھ کر راستا ہی بدل لیتا تھا۔ کئی لڑکوں نے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے دوستی کرنا چاہی تھی مگر منہ کی کھائی تھی کیوں کہ وہ کسی کو منہ نہیں لگاتی تھی۔
اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ کوئی اسے مغرور کہتا تھا کوئی بد دماغ۔ کئی نامراد عاشقوں نے اسے نفسیاتی مریض قرار دیا تھا۔ وہ اپنے بارے میں ہونے والی سب باتوں سے بے نیازتھی۔ روز ایک نئی تراش کے لباس میں آتی اور دل پھینک لڑکوں کے دلوں پر بجلیاں گراتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔ اس کے بدن کی تراش بھی ایسی تھی کہ ہر لباس اس پر سجتا تھا۔ چہرے کی خوبصورتی لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن نہ ہو مگر چند تفصیلیں شاید کسی حد تک اس کے خد و خال واضح کر سکیں۔ اس کی بھنویں بے حد پتلی اور باریک تھیں۔ بڑی بڑی ڈارک براؤن آنکھیں، لمبی لمبی پلکیں، بے حد چمکیلے ڈارک براؤن بال، ستواں ناک اور نتھنوں کا بے حد خفیف ابھار، بے حد سرخ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، بے حد گورے گال اور ٹھوڑی کا گڑھا جو اس کے چہرے کو مزید خوبصورت بناتا تھا۔
ہم سب فزکس ڈیپارٹمنٹ میں تھے یعنی وہ، میرے دوست اور میں۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ہونے کے باوجود اس سے کبھی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ اس کا نام سعدیہ تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی دو فرینڈز اقرا اور ندا کے ساتھ نظر آتی تھی۔ وہ دونوں بھی اس کی سہیلیاں کم اور خادمائیں زیادہ لگتی تھیں۔ اس کی ہر بات پر واہ واہ کرنا اور داد دینا بھی شاید ان کے فرائض میں شامل تھا۔ اس کے والد کروڑ پتی بزنس مین تھے۔ وہ اپنی بے حد قیمتی گاڑی میں یونیورسٹی آتی تھی۔ ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولتا اور وہ ایک شانِ بے نیازی سے باہر نکلتی۔ اسے دیکھتے ہی اقرا اور ندا فوراً آگے بڑھ کر اس کے دائیں بائیں چلنے لگتیں۔
میں، قمر اور راشد یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے تھے۔ قمر کو شاعری سے شغف تھا اور راشد کرکٹ کا دیوانہ تھا چناں چہ ان دونوں کو راہ پر لانے کے لیے مجھے خاصی جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ میں راتوں کو جاگ جاگ کر نوٹس تیار کرتا اورانہیں سنجیدگی سے پڑھائی کرنے کی تلقین کرتا رہتا تھا۔ ایک دن لنچ کے بعد جب میں ہاسٹل کے کمرے میں پڑھائی کا آغاز کرنے والا تھا تو قمر آ دھمکا۔ آتے ہی میرے سامنے بیٹھ گیا اور خواہ مخواہ مسکرانے لگا۔
”خیریت؟ یہ باچھیں کیوں کھلی جا رہی ہیں؟ “ میں نے بیزاری سے کہا۔
”گیس کرو مائی ڈئیر۔ “ اس نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
”تازہ غزل کا نزول لگتا ہے اور اب سمع خراشی کرنا چاہتے ہو۔ “
”جی نہیں، بات کچھ اور ہے۔ “
”تمہارا پرائز بانڈ نکلا ہے۔ “
”نہیں یار کچھ اور سوچو۔ “
”بتانا ہے بتاؤ، ورنہ جاؤ یہاں سے۔ “ میں نے تیز لہجے میں کہا۔
”اچھا اچھا بتاتا ہوں۔ آج سعدیہ سے بات ہوئی ہے۔ “ قمر بولا۔
”تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے ملکہ برطانیہ سے بات کی ہو۔ اس میں اتنا سینٹی مینٹل ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ “
”سمجھنے کی کوشش کرو یار۔ وہ میرے دل کی ملکہ ہے اور اس نے مجھے خود بلایا وہ بھی مسکراتے ہوئے۔ تم نے سنا نہیں ہنسی تو پھنسی۔ “ قمر بولا۔
”چلو یہ تو بہت اچھا ہوا۔ اب تمہاری شاعری سنور جائے گی۔ عشق میں دل ٹوٹنا شاعری کے لیے بے حد مفید ہے۔ کل جب تمہاری خوش فہمیاں دور ہوں گی پھر تمہاری شاعری میں نکھار آئے گا۔ “ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”جلنے کی کوئی ضرورت نہیں میرے یار، تم بھی ٹرائی کر سکتے ہو۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ “ قمر نے بے نیازی سے کہا۔
”اجازت؟ اور تم سے؟ اول تو میں اس میدان کا کھلاڑی نہیں، ہوتا بھی تو یہ جملہ برداشت نہ کرتا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر صرف اتنا کہوں گا کہ تم انتہائی بے ہودہ انسان ہو“
” او کے سوری! آج تمہاری کسی بات کا برا نہیں مانوں گا کیونکہ میں بہت خوش ہوں۔ “ قمر نے کہا۔
عین اسی وقت راشد گنگناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ آتے ہی ہمیں دیکھ کر پل بھر کو رکا اور پھر سے گنگنانا شروع کر دیا۔
”آپ بھی ذرا جلدی سے بتا دیں کہ اس سرشاری کا سبب کیا ہے؟ “ میں نے بھنویں اچکائیں۔
”مجھے مبارک باد دو دوستو! مجھے محبت ہو گئی ہے۔ “ راشد مسکرایا۔
” شکر ہے کرکٹ کے عشق کے بعد محور بدلا۔ کون ہے وہ بد نصیب؟ “ میں نے پوچھا۔
”بد نصیب نہیں دوست خوش نصیب تم جلن میں الٹ بول گئے۔ اور میں تو مقدر کا سکندر ہوں، جسے چاہا تھا وہ بالآخر میری طرف ملتفت ہو گیا۔ جانتے ہو کون ہے وہ؟ “
”ایک اندازہ ہے، وہ روکھی پھیکی لائبریرین امِ حبیبہ ہی ہو سکتی ہے۔ کل بڑی پیار بھری نظروں سے تمہیں دیکھ رہی تھی لیکن یار وہ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے اور عمر میں تم سے دگنی ہے، خیر تمہاری قسمت میں وہی لکھی تھی۔ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ “ میں نے پر خیال لہجے میں کہا۔
”ناؤ دس از ٹو مچ۔ اتنا حسد اچھا نہیں ہوتا۔ سنو گے تو ہوش اڑ جائیں گے، اس کا نام سعدیہ ہے۔ میں کینٹین کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے خود مجھے بلایا اور حال احوال پوچھا۔ تم خود سوچو جو لڑکی کسی لڑکے کو گھاس نہیں ڈالتی، اس نے مجھے بلایا اور چائے پینے کی دعوت دی۔ “ راشد بولا۔
”نہیں یہ نہیں ہو سکتا، پھر تم نے اس کے ساتھ چائے پی لی۔ “ قمر چیخ اٹھا۔
”ابے کہاں یار، میری ہی عقل گھاس چرنے چلی گئی تھی۔ میں نے مروت میں انکار کر دیا اور وہ بائے بائے کرتے ہوئے چلی گئی۔ “ راشد نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”اچھا تم دونوں کا غم مشترکہ ہے، تم کہیں اور جا کر آہیں بھرو، مجھے پڑھنے دو۔ “ میں نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”میں کہیں نہیں جانے والا۔ “ قمر بولا۔
”میں یہیں بیٹھا ہوں۔ “ راشد بھی اڑ گیا لیکن میں نے انہیں بھیج دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ دونوں مذاق کر رہے ہیں۔ آنے والے چند دنوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ میرا خیال غلط تھا۔ سعدیہ لڑکوں سے ملتی جلتی نہیں تھی مگر قمر اور راشد سے اس کی ہیلو ہائے ہوتی تھی۔ ایک دن وہ دونوں باری باری میرے پاس آئے اور کسی چیپٹر کے نوٹس کا مطالبہ کر دیا۔ میں حیران تھا کہ اچانک ان دونوں کو اس چیپٹر کے نوٹس سے ایسی کیا دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ ذرا سی تفتیش کے بعد دونوں نے حقیقت اگل دی۔ در اصل نوٹس سعدیہ نے مانگے تھے۔ وہ دونوں اسے نوٹس فراہم کر کے اپنا سکہ جمانا چاہتے تھے۔ بہر حال میں نے نوٹس تیار کیے ہوئے تھے۔ فوٹو اسٹیٹ کاپیاں دونوں کو دے دیں۔
اگلے دن دونوں ہی منہ لٹکائے میرے کمرے میں بیٹھے تھے اور سعدیہ کے خلاف خوب زہر اگل رہے تھے۔ ان کی باتوں سے پتا چلا کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے چکر میں انہوں نے ایک ہی دن باری باری اسے دل کی کیفیت بتائی اور حسبِ سابق منہ کی کھائی۔ راشد کو یہ غم تھا کہ سعدیہ نے اسے بے نقط سنائی تھیں اور قمر کا دکھ یہ تھا کہ سعدیہ نے اسے کہا تھا کہ آئندہ وہ اسے اپنی شکل نہ دکھائے۔
”سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے، ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے۔ “ قمر نے غمگین انداز میں فراز کا شعر پڑھا۔
”دوستو! جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے، اب تم دونوں اپنی اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جاؤ لیکن یہاں نہیں اپنے کمرے میں جا کر۔ “ میں نے رسان سے کہا۔ ان دونوں کے منہ بن گئے۔
”مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تم دوستی کا حق ادا نہیں کر رہے ہو۔ ہماری دلجوئی کی بجائے ہمیں کمرے سے نکال رہے ہو۔ “ قمر نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔
”اوہ! میں بے دھیانی میں ایسا کہہ گیا۔ اچھا بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ غمگین گانے ڈاؤن لوڈ کر دوں۔ “ میں نے افسردگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
” تم اتنا بھی کر سکو تو غنیمت ہے، عطا اللہ نیازی کے کرنا، میں رونا چاہتا ہوں۔ “ قمر نے آہ بھری۔
”راشد میاں! آپ کیا پسند فرمائیں گے، میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ “ میں نے راشد کی طرف رخ کیا۔
”یار میں سوچ رہا ہوں سعدیہ سے انتقام کے طور پر اس کی سہیلی ندا سے عشق کر لوں۔ ویسے ندا بھی اچھی لڑکی ہے۔ سعدیہ نے اس کے سامنے مجھے برا بھلا کہا تھا اور وہ اسے منع کر رہی تھی۔ کہیں وہ مجھ سے پیار تو نہیں کرتی۔ “ راشد سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
”اف! یہ خیال مجھے کیوں نہیں آیا۔ اقرا نے کئی بار مجھے میٹھی نظروں سے دیکھا ہے۔ اس کا اور میرا نام ایک ہو کر بڑا اچھا لگے گا۔ اقرا قمر۔ واہ شاعرانہ سا نام بن جائے گا۔ شکریہ میرے دوست تم نے مجھے امید کی کرن دکھائی۔ “ قمر نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
میں ان کی گفتگو پر مسکرا کر رہ گیا۔ ان دنوں طلبہ تنظیمیں متحرک ہوا کرتی تھیں۔ راشد سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ جمیعت کے ایک اجلاس میں چلا گیا۔ بعد میں جب اس کا جھکاؤ پی ایس ایف کی طرف ہوا تو جمیعت کے دوستوں کو یہ تبدیلی ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے راشد پر دباؤ ڈالا کہ وہ پی ایس ایف سے کنارہ کش ہو جائے۔ راشد نے اسے ذاتی توہین سمجھتے ہوئے جمیعت کے روح رواں جاوید بھائی کو کھری کھری سنا دیں۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
میں لائبریری کی طرف نکلا تھا جب مجھے قمر بھاگتے ہوئے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ بے حد گھبرایا ہوا تھا اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
”وصی! غضب ہو گیا۔ جمیعت کے لڑکوں نے راشد کو بہت بری طرح مارا ہے۔ ناصر اور انور کو اس کے پاس چھوڑ کر تمہیں بلانے آیا ہوں۔ اسے فوراً ہاسپٹل لے جانا ہے۔ “
اس کی بات سنتے ہی میں بھی بھاگ کھڑا ہوا۔ عین اسی وقت سعدیہ اپنی سہلیوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھی۔ اس نے ہمیں یوں بھاگتے ہوئے حیرت سے دیکھا۔ راشد زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ کینٹین کے ساتھ والے لان میں پڑا تھا۔ اس کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹ چکے تھے۔ ہونٹ بھی پھٹ چکا تھا۔ بازو اور ایک ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے کسی تیز دھار آلے سے بھی اس پر وار کیا تھا۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا۔ غم و غصے سے ہمارا برا حال تھا۔
”کسی ٹیکسی یا ایمبولینس کو بلایا ہے؟ “ میں نے تیزی سے کہا۔
”جی بلایا ہے، ابھی تک وہ پہنچا نہیں ہے۔ “ ناصر نے پریشانی کے عالم میں بتایا۔
اتنے میں سعدیہ بھی تیز تیز چلتی ہوئی ہمارے قریب آ چکی تھی۔ راشد کی حالت دیکھ کر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے فوری طور پر اپنے ڈرائیور کو بلایا۔ وہ اسے لے جانے کے لیے آیا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس کی گاڑی میں ہسپتال کی طرف رواں دواں تھے۔
ہسپتال میں راشد کو ڈاکٹرز کے حوالے کرنے کے بعد ہم کوریڈور میں پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے۔ ابتدائی معائنے کے بعد پتا چلا کہ اس کے سر پر بھی شدید ضربیں لگائی گئی تھیں۔ جسم کی ہڈیاں بچ گئی تھیں مگر زخم بہت گہرے تھے۔ خون مسلسل بہتا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کے جسم میں خون کی کمی واقع ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر خون کی دو بوتلوں کا انتظام کرنے کے لیے کہا تھا۔ میں نے بلڈ بنک سے رابطہ کیا مگر مطلوبہ گروپ کا خون دستیاب نہیں تھا۔ اتفاق سے میرا اور قمر کا بلڈ گروپ بھی مختلف تھا۔ سعدیہ ابھی تک وہیں تھی وہ بھی خاصی پریشان تھی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چلی جائے لیکن وہ ٹھہری رہی تھی۔ اب اس نے ہمیں پریشانی کے عالم میں دیکھا تو اس نے کہا کہ میرا خون لے لو۔ میں نے اسے غور سے دیکھا وہ بے حد پریشان لگ رہی تھی۔
”آؤ میرے ساتھ“ میں نے کہا۔ وہ میرے ساتھ چل پڑی۔
”تمہارا بلڈ گروپ او نیگٹو ہی ہے ناں۔ “
”مجھے نہیں پتا۔ “
”اوہ! پہلے چیک کرنا پڑے گا۔ مگر دو بوتلیں چاہیں، کسی اور سے بھی لینا پڑے گا۔ “
میں نے قمر کو یونیورسٹی کے دوستوں سے رابطہ کرنے کے لیے کہا۔ سعدیہ کا بلڈ گروپ بی پازیٹو تھا۔ یہ پتا چلتے ہی اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ مدد کرنا چاہتی تھی مگر کر نہیں پائی تھی۔
”تم نے ہمارا بہت ساتھ دیا ہے۔ اگر ہم فوری طور پر راشد کو یہاں نہ لاتے تو بہت نقصان ہو جاتا۔ “ میں نے کہا۔
”پلیز ایسا مت کہو۔ میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔ “ اس کے لہجے میں خلوص تھا۔ میں نے اس کے باوجود اس کا شکریہ ادا کیا۔ دوست آن پہنچے اور خون کا انتظام ہو گیا۔ سعدیہ جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر میرے اصرار پر اپنے گھر چلی گئی۔ شام تک راشد کی طبیعت کچھ سنبھل چکی تھی۔ میں نے باقی دوستوں کو بھی بھیج دیا۔ قمر میرے ساتھ تھا۔ راشد پرائیویٹ روم میں تھا اور اس کا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ دواؤں کے اثر سے وہ غنودگی کے عالم میں تھا۔ تب اچانک وہاں سعدیہ آ گئی۔
”تم؟ “
”میں راشد کی حالت کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ “ اس نے بتایا۔
”اب کافی بہتر ہے مگر ابھی ہسپتال میں رہنا ہو گا۔ “
” او کے۔ تم لوگوں نے کھانا کھایا؟ “ اس نے پوچھا۔
”اوہ! نہیں، خیال ہی نہیں رہا۔ “ میں نے چونک کر کہا۔
”مجھے پتا تھا، ایسا ہی ہو گا۔ باہر میری گاڑی میں کھانا موجود ہے۔ اب پہلے کھانا کھا لو پھر کوئی اور بات ہو گی۔ “ وہ بولی۔
قمر گاڑی سے کھانا لے آیا۔ کھانا کھاتے ہوئے میں سعدیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی شخصیت کا یہ پہلو نیا لیکن بہت خوبصورت تھا۔
ایک نرس نے آ کر راشد کو چیک کیا۔ پھر ڈرپ میں دو تین انجکشن ڈال کر اسے چلا دیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا اور ہمیں تسلی دی کہ سب کچھ نارمل ہے اور وہ بہت جلد صحت یاب ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب گئے تو قمر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
”تم کہاں چلے؟ “ میں نے پوچھا۔
”یار ذرا باہر کا چکر لگا کر آتا ہوں۔ “
میں بنچ پر بیٹھا تھا۔ سعدیہ کرسی پر بیٹھی تھی۔ قمر کے جانے کے بعد وہ اٹھی اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
”وصی مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔ ان لڑکوں نے اسے بہت بری طرح مارا ہے۔ “ وہ دھیرے سے بولی۔
”ہاں دکھ تو بہت ہے، راشد ٹھیک ہو جائے ان کو بھی دیکھ لیں گے۔ “ میں نے غصے سے مگر دبی دبی آواز میں کہا۔
” اچھا تمہارے نوٹس میرے پاس پہنچے تھے۔ میں نے کچھ ڈسکس بھی کرنا تھا۔ “ وہ بولی۔
”میرے نوٹس؟ “
”ہاں! قمر اور راشد نے تو کہا تھا کہ انہوں نے رات بھر جاگ کر نوٹس بنائے ہیں مگر مجھے پتا ہے وہ تمہاری کاوش تھی۔ “
”خیر کوئی بات نہیں۔ تم کیا ڈسکس کرنا چاہتی تھیں۔ “
”ابھی موقع نہیں پھر کبھی بات کروں گی۔ “
”اؤ کے۔ “
”سنو! تم اتنے الگ تھلگ کیوں رہتے ہو؟ “ اس نے میری طرف چہرہ گھماتے ہوئے کہا۔
”نہیں تو، ایسا نہیں ہے۔ میرے تو بہت سے دوست ہیں۔ “ میں نے حیرت سے کہا۔
عین اسی وقت قمر کمرے میں داخل ہوا۔
”دیکھو ایک دوست یہ ہے اور ایک پٹیوں میں جکڑا پڑا ہے۔ “ میں نے مسکرا کر کہا۔
”اب قمر آ گیا ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے باہر لان میں چلتے ہیں، میں نے کچھ بات کرنی ہے۔ “
وہ بولی۔
”ٹھیک ہے۔ “ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر لان میں ٹہلتے ہوئے ہم باتیں کر رہے تھے۔ پھر ایک جگہ پر رک گئے۔
”اتنا عرصہ ہو گیا ہے تم نے کبھی مجھے دیکھا بھی نہیں۔ “ سعدیہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب؟ میں نے تو تمہیں کئی بار یونیورسٹی میں دیکھا ہے۔ “
”بالکل غلط، کبھی نہیں دیکھا۔ اب دیکھو میری طرف۔ “
کھمبے پر لگی ہوئی لائٹ اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ میرے اتنے قریب کھڑی تھی کہ میں اس کی گرم گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا۔
”سعدیہ تم کیا کہنا چاہتی ہو؟ “
”وصی! میں تمہیں کیسی لگتی ہوں؟ تم نے کبھی بتایا ہی نہیں۔ “ میں چونک اٹھا۔
”تم بہت اچھی لڑکی ہو، تھوڑی تیکھی ہو مگر دل کی بہت اچھی ہو۔ ہاں بہت خوبصورت بھی ہومگر تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟ “
”کیوں کہ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں۔ “ اس کے سرخ ہونٹ کپکپائے۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔