ظفر عمران
وہ پی ٹی وی پشاور سینٹر کے ڈراموں میں دکھائی دیا کرتی تھیں۔ پھر شوبز انڈسٹری میں بڑی تبدیلیاں آئیں؛ نمایاں تبدیلیاں یہ کہ نجی ادارے بن جانے سے یہ انڈسٹری سکڑ کے کراچی تک محدود ہو گئی۔ اب جس فن کار کو ٹیلے ویژن کے لیے کام کرنا ہے، وہ کراچی میں آ بسے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جوانی بہار کے مانند ہے۔ سانولے سلونے نقوش والی اس اداکارہ کی جوانی بھی گلاب تھی؛ یہ مجھے اپنے بچپن سے پسند رہی ہیں، جب وہ جوان ہوا کرتی تھیں۔ فرض کرتے ہیں ان کا نام ماہ رُخ ہے۔ اُس دَور میں ہم اخبار کا ایک ہی صفحہ دیکھا کرتے تھے، وہ تھا شوبز پیج۔ اداکاروں کی نجی زندگی میں کیا ہو رہا ہے، کس کو طلاق ہوئی کس کی کتنویں شادی ہے۔ کس کا معاشقہ کس کے ساتھ چل رہا ہے۔ ایسی مسالے دار خبریں پہلے بھی توجہ حاصل کرتی تھیں، آج بھی متوجہ کرتی ہیں، لیکن آج میں ان خبروں کی حقیقت جانتا ہوں، سو وہ لطف نہیں رہا۔
کبھی کبھی لگتا ہے، آج کا پورا نیوز میڈیا اخبار کا شوبز پیج بن کے رہ گیا ہے، جہاں ہر خبر چٹپٹی مسالے دار، اور غیر مصدقہ ہے۔ ان دنوں ماہ رُخ کے بارے میں خبریں تھیں کہ ایک شوہر سے طلاق لے کے، دوسرے سے شادی کرلی، ایک بار یہ خبر کہ دوسرے شوہر سے بھی طلاق ہو گئی ہے۔ تیسری شادی کر لی ہے۔
ایسی خبروں پر اطراف میں ایسے تبصرے ہوتے سنا کرتے تھے، کہ اوہ چھڈو جی، ان کا تو کام یہی ہے؛ یہ ہماری طرح کے تھوڑی ہوتے ہیں، جو نارمل زندگی گزاریں، زندگی تو وہ ہے جو ہم گزارتے ہیں، لیکن یہ اپنے مزوں میں ہر طرح کی شرم حیا گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ شوبز کی عورتیں؟ یہ کسی کے قابو میں کب آتی ہیں! ایلزبتھ ٹیلر یاد ہے ناں؟ کتنی شادیاں کیں اُس نے؟ اوہ جی ایلزبتھ ٹیلر کو چھوڑو، اپنی نور جہاں کی بات کرو، پانچ چھہ تو اعلانیہ کی ہیں اور خفیہ کا پتا نہیں۔ توبہ توبہ، توبہ استغفار۔
پی ٹی وی اسلام آباد میں ایک پروڈیوسر ہوا کرتے تھے، جمشید فرشوری۔ یہ پی ٹی وی گلوبل کے جی ایم ہو کے رِٹائر ہوئے۔ مرحوم میرے محسنوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اپنا دفتر بلیو ایریا میں بنایا، کیمرے اور اڈٹنگ کا سامان کرائے پر دِیا کرتے تھے۔ ایک روز میں کسی کام سے وہاں بیٹھا تھا، اور کسی دوسرے سے اپنی حسرت بیان کر رہا تھا، کہ میرے پاس سرمایہ ہوتا، تو میں شوبز ورلڈ میں انقلاب لے آتا، وغیرہ۔ فرشوری صاحب نے یہ بات سن لی، گزرتے ہوئے ٹھٹھک گئے اور کہا۔
”بہانے مت بناو، کچھ کرنا چاہتے ہو، تو یہاں سے سامان اُٹھاو اور جاو کر دکھاو جو کر سکتے ہو۔“
”بہانے مت بناو، کچھ کرنا چاہتے ہو، تو یہاں سے سامان اُٹھاو اور جاو کر دکھاو جو کر سکتے ہو۔“
مجھ میں جیسے کسی نے روح پھونک دی ہو، اس زمانے میں کیمرا اور اڈٹنگ ایکوپمنٹ کا حصول ہی بہت کچھ ہوتا تھا۔ میں نے خود ہی ایک کہانی لکھی، اپنے دوستوں کو اکٹھا کیا، اداکاری کروائی اور خود ہی ہدایات دیں۔ یہ سلسلے وار کھیل پی ٹی وی سے نشر ہو گیا، یوں دیرینہ خواب تعبیر ہوا؛ ایک کے بعد دوسرا کھیل اور پھر کئی موڑ ہیں، کئی اتار چڑھاو۔
یہ تفصیل یونھی آ گئی، جمشید فرشوری کا ایک جملہ نقل کرنا تھا، اُنھوں نے بتایا کہ اپنی نوجوانی میں وہ محمد علی اور زیبا کے پرستار رہے ہیں۔ اُنھیں قریب سے دیکھنے کے لیے کوئی سی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار تھے، پھر وہ وقت آیا، کہ وہ پی ٹی وی میں پروگرام پروڈیوسر ہوئے، ایک دن ایسا ہوا کہ محمد علی، زیبا سیٹ پر بیٹھے ہیں، اور ان کے بقول:
”میری تمام تر توجہ اسٹوڈیو لائٹس ٹھیک کروانے میں رہی۔“
”میری تمام تر توجہ اسٹوڈیو لائٹس ٹھیک کروانے میں رہی۔“
فرمایا کہ شوبز انڈسٹری میں آ کے اس کا وہ چارم جاتا رہتا ہے، جو ایک ناظر کے طور پہ ہوتا ہے۔ اب ہم کوئی فلم دیکھتے ہوئے ویسا لطف نہیں لے سکتے، جیسے ایک عام ناظر لطف اندوز ہوتا ہے؛ ہم یہ دیکھتے ہیں، کہ کہاں ڈائریکٹر نے کیا کِیا، کون سا کٹ کس کے بعد آ رہا ہے، کہیں جمپ شاٹ تو نہیں؛ لایٹ کیسی ہے؛ یہاں اداکار کی موو لینا چاہیے تھی؛ انھی باتوں میں الجھ کے اپنی تفریح کا بیڑا غرق کر لیتے ہیں۔
’’در اصل ہم تفریح کے نام پر کام کر رہے ہوتے ہیں‘‘۔
’’در اصل ہم تفریح کے نام پر کام کر رہے ہوتے ہیں‘‘۔
کراچی میں پشاور کی وہی سانولی سلونی سی ماہ رُخ میرے سامنے تھیں؛ ویسے ہی جیسے جمشید فرشوری کے سامنے محمد علی اور زیبا۔ کام تو کام ہوتا ہے؛ ایک بیٹس مین میدان میں اُترے تو یہ تھوڑی دیکھتا ہے، کہ مقابلے میں کون سا باولر ہے، اُس کی پوری توجہ گیند پر ہونی چاہیے؛ اگر وہ باولر کے سابق کارناموں سے متاثر ہو گیا، تو اس کو اعتماد سے کیسے کھیلے گا۔
پختہ عمر کے باوجود ان میں ایک کشش تھی۔ اسکرپٹ کے مطابق سچوایشن یہ ہے کہ ان کا شوہر نے ان کے منہ پر تھپڑ مارنا ہے، اور اپنے جملے ادا کر کے فریم آوٹ ہو جانا ہے۔ سانولی سلونی نے مقابل اداکار سے کہا، تھپڑ حقیقی لگنا چاہیے، تو ایسا کرو، سچ مچ کا مار دو۔ مقابل اداکار عمر میں تو انھی جیسا تھا، لیکن تجربے میں ان سے کہیں کم؛ اوپر سے یہ عورت ذات، تو مشکل یہ تھی کہ وہ تھپڑ کیوں کر مارے۔ فرسٹ ٹیک، سیکنڈ ٹیک، تھرڈ ٹیک، کئی ٹیکس؛ سین مکمل ہو کے نہیں دے رہا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ماہ رُخ کا ردِ عمل وہ نہ تھا جو مطلوب تھا۔
وہ بضد ہوئیں کہ جب تک تھپڑ نہیں مارو گے، میرا وہ ری ایکشن نہیں آنے والا، جو چاہیے۔ بالآخر اداکار نے ان کے منہ ایک زوردار تھپڑ رسید کر دیا، ویسا ہی بھر پور جیسا وہ چاہتی تھیں۔ ماہ رُخ کا ردِ عمل اتنا فطری تھا، کہ سبھی ساکت ہو رہے۔ فرش پر گرے پڑے ان کی آنکھوں سے آنسووں کی دھار بہ رہی تھی، میک اپ کے باوجود چہرہ پیلا زرد دکھائی دے رہا تھا۔ ٹیک بہت شان دار رہی۔ کٹ کی آواز آئی، لیکن وہ اپنی جگہ بیٹھی آنسو بہاتی رہیں۔ تھوڑی دیر میں سبھی کو احساس ہوا، کہ وہ سچ مچ کا رو رہی ہیں، یہ اداکاری نہیں ہے۔ ان کے چہرے کا پیلا پٹک رنگ کم ہو کے ہی نہیں دے رہا۔
ساتھی اداکار آگے بڑھا اور منت سماجت کرتے معافی مانگنے لگا، کہ میرا ہاتھ زرا زور سے پڑ گیا، میں تو پہلے ہی منع کر رہا تھا، آپ ہی بضد تھیں، وغیرہ۔ تھوڑی دیر میں جب ماہ رُخ بحال ہوئیں تو وہی اداکار جس نے تھپڑ مارا تھا، ان کے قریب جا بیٹھا، ایک بار پھر معذرتی کلمات ادا کرنے لگا۔ ایسے میں سانولی سلونی کے چہرے پر مسکراہٹ کی لکیریں نمودار ہوئیں؛ وہ ساتھی اداکار کو جواب دے رہی تھیں اور میں انھیں بغور دیکھ رہا تھا، اگر چہ ان کے لبوں پر مسکان تھی، لیکن آنکھوں میں کرب۔
”نہیں؛ اس میں تمھارا تو کوئی قصور نہیں ہے اور نا ہی یہ تھپڑ کا درد تھا۔ اصل میں تمھارے تھپڑ سے مجھے اپنا مرحوم شوہر کی یاد آ گئی؛ وہ بھی اتنی قوت سے مارا کرتے تھے۔ تم نے تو ایک ہی مارا، وہ مارتے چلے جاتے تھے۔