بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کی شکایات پر تحقیقات

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایات سامنے آنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق یونیورسٹی کے سکیورٹی انچارج سمیت درجنوں اہلکاروں سے تفتیش شروع کردی گئی ہے اور تحقیقات میں ہراساں کرنے سے متعلق شواہد بھی ملے ہیں۔
یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم کا کہنا ہے کہ صرف طلبہ و طالبات ہی نہیں خواتین و مرد اساتذہ کو بھی ہراساں اور بلیک میل کیا جارہا ہے۔
ایف آئی اے کے کوئٹہ میں ایک سینئر آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ تحقیقات کا یہ عمل بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات اور طالبات کی ویڈیوز بناکر انہیں جنسی طو ر پر ہراساں کرنے کی شکایات ملنے کے بعد شروع کی گئی۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے کی سائبر کرائم ٹیم نے کوئٹہ کے سریاب روڈ پر واقع یونیورسٹی آف بلوچستان کے سکیورٹی برانچ اور ہاسٹل سمیت مختلف شعبوں پر چھاپے مارے۔


بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے صدر گورگین بلوچ نے الزام لگایا کہ انتظامیہ کے بعض اہم عہدےدار اور اساتذہ طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کررہے ہیں۔


ایف آئی اے آفیسر کے مطابق چھاپے کے دوران ایسے شواہد ملے ہیں جس سے طالبات کو ہراساں کرنا ثابت ہورہا ہے۔ ایف آئی اے کی ٹیم کو یونیورسٹی میں واش روم سمیت مختلف مقامات سے خفیہ کیمرے ملے ہیں جو بجلی کے سوئچ بورڈ یا اس جیسے دیگر خفیہ مقامات پرنصب کیے گئے تھے۔
ایف آئی اے آفیسر کے بقول یونیورسٹی کے سکیورٹی اور سرویلنس برانچ کے انچارج، آفیسروں اور اہلکاروں سمیت درجنوں افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے اور ان میں سے بعض اہلکاروں کے موبائل فون ، لیپ ٹاپ اور دیگرڈیوائسز قبضے میں لےکر ان کا فارنزک کرایا جارہا ہے۔ تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی میں انتظامیہ کی جانب سے سکیورٹی انتظامات کے تحت نصب کئے گئے کلوز سرکٹ کیمروں کا ریکارڈ بھی حاصل کیا جارہا ہے جن کا جائزہ لےکر تحقیقات کو مزید آگے بڑھایا جائےگا۔
مزید پڑھیں

وجود زن رنگ یا بھنگ؟

ایف آئی اے آفیسر کے مطابق تحقیقاتی ٹیم جلد تحقیقات مکمل کرنے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ ہائیکورٹ نے اس مہینے کے آخری ہفتے تک اس معاملے کی رپورٹ مانگی ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے ترجمان امیر حمزہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے گذشتہ روز یونیورسٹی آف بلوچستان کا دورہ کیا اور جن اہلکاروں کے خلاف شکایات تھیں ان کے بیانات قلمبند کیے۔ ان اہلکاروں نے اپنے موبائل فون اور دیگر ڈیوائسز بھی ایف آئی اے کے حوالے کردی اور وہ تحقیقات میں تعاون کررہے ہیں۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے صوبائی صدر اور یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایم فل کے طالبعلم گورگین بلوچ نے اردو نیوز سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض اہم عہدےدار اور اساتذہ طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کررہے ہیں۔


کیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ فرید خان اچکزئی کے مطابق یونیورسٹی میں یہ سلسلہ دو تین سالوں سے چل رہا ہے۔ فوٹو سوشل میڈیا


 ’ہم سے کئی متاثرہ طالبات نے رابطہ کیا اور بتایا کہ طالبات کو خفیہ کیمروں سے بنائی گئی ویڈیوز وٹس اپ کرکے کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس آئیں ورنہ یہ ویڈیوز عام کردی جائیں گی یا پھر آپ کے والدین کو بھیجی جائیں گی ‘۔
گورگین بلوچ نے الزام لگایا کہ تین دن قبل گریجویٹ اسٹڈیز آفس ( جی ایس او) کے ایک سینئر عہدےدار کو ایم فل کی طالبہ کو بلیک میل کرکے ٹیچر ہاسٹل لے جاتے ہوئے پکڑا گیا۔
انہوں نے کہا کہ طالبات کو امتحان میں ناکام کرنے کی بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ’یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں ۔ متاثرہ طالبات ایسے معاملات کو سامنے لانے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہیں ہراساں کرنے والے طاقتور لوگ ہیں۔‘
 انہوں نے کہا کہ ہم مسلسل ایسے معاملات کو سامنے لارہے ہیں مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا ہے۔ 2017ءمیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت دیگر طلبہ تنظیموں نے احتجاجی کیمپ لگایا اور مطالبہ کیا کہ خفیہ کیمروں کے ذریعے طلبہ و طالبات کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
مزید پڑھیں

طالبہ کو ہراساں کرنے پر اسکول پر دھاوا

یونیورسٹی آف بلوچستان کے اساتذہ کی تنظیم اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ فرید خان اچکزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں یہ سلسلہ اب سے نہیں بلکہ دو تین سالوں سے چل رہا ہے۔ ہم کافی عرصے سے محسوس کررہے تھے کہ یونیورسٹی میں آخری حد تک غیر اخلاقی سرگرمیاں پروان چڑھ رہی ہیں ۔
’ہمیں طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ مرد و خواتین اساتذہ کی طرف سے شکایات مل رہی تھیں کہ انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے ۔ ہم نے اس سلسلے میں گورنر بلوچستان اور وائس چانسلر تک اپنے تحفظات پہنچائے مگر کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔‘
فرید اچکزئی کے مطابق اب جب ایک وفاقی تفتیشی ادارے نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے ہم اسے خوش آئند کہتے ہیں ہم ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں ۔اس معاملے کی ساری تفتیش غیر جانبدارانہ اور بلا تفریق ہونی چاہیے چاہےاس میں کوئی استاد ملوث ہو، آفیسر یا کوئی ملازم، جو بھی مجرم ثابت ہوں انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس غیر اخلاقی عمل میں یونیورسٹی کے چھوٹے گریڈ کے اہلکار نہیں بلکہ بڑے آفیسران اور بڑی مچھلیاں ملوث ہیں انہیں بھی شامل تفتیش ہونا چاہیے اور یہ معلوم کیاجانا چاہیے کہ یہ سب کچھ کس کی ایما پر اور کس لیے کیا جارہا تھا۔ ’چار گریڈ کا اہلکار کبھی بھی خفیہ کیمرہ لگانے کی جرات نہیں کرسکتا جب تک اسے کسی بڑے آفیسر کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کو فی الفور استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ وہ تفتیشی اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی موجودگی میں شفاف تحقیقات نہیں ہوسکتی۔
مزید پڑھیں

خواتین کو گھورنا بھی ہراسگی ہے ،کشمالہ

تاہم یونیورسٹی آف بلوچستان کے ترجمان امیر حمزہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر کے دفتر یا انتظامیہ کو اس سے قبل کسی طالب علم یا استاد کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوئی شکایت نہیں ملی ۔ ’بعض سیاسی اور طلبہ تنظیموں کے اپنے مفادات ہیں وہ اس معاملے کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔‘
یونیورسٹی آف بلوچستان کے چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ’ہم ایف آئی اے سے مکمل تعاون کررہے ہیں مگر ان کی جانب سے اب تک ہم سے کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں۔ یونیورسٹی سے کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔‘
’بلیک میلنگ کے الزامات میں صداقت نہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی اس معاملے میں بھی زیرو ٹالیرنس کی پالیسی ہے۔ معاملے میں ذرا بھی صداقت ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔
 ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ بعض عناصر کو بلوچستان یونیورسٹی کی ترقی برداشت نہیں ہورہی اور وہ منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔