کیا آپ اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں؟


 ‘ہم سب’ پر لکھنے کی وجہ سے جن ادیبوں’ شاعروں اور دانشوروں سے دوستی ہوئی ان میں سرِ فہرست ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ہیں۔ میں اور میری دوست زہرا نقوی پچھلے چند دنوں سےامریکہ کی سٹیٹ اوکلاہوما کے شہر نورمن میں ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کے مہمان ہیں۔ انہوں نے ہماری ملاقاتیں ان امریکیوں سے کروائیں جو باضمیر انسان ہیں۔ وہ ڈانلڈ ٹرمپ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہ امن کا خواب دیکھنے والے ہیں۔ انہوں نے جس فراخ دلی اور کشادہ دلی سے میرا استقبال کیا اور مجھے اپنے خیالات کے اظہار کو موقع دیا وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔

جب میں اپنی زندگی میں اپنے محسنوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ذہن میں ان کی ایک طویل فہرست ابھرتی ہے۔ آج میں صرف دو محسنوں کا ذکر کروں گا تا کہ آپ بھی اپنے محسنوں کو یاد کریں اور ان کا شکریہ ادا کریں۔ ایسا کرنے سے دوستیاں مضبوط ہوتی ہیں اور ہمارے دلوں میں احساسِ ممنونیت پیدا ہوتا ہے جو ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔

کینیڈا میں میرے ایک بزرگ دوست ہیں جن کی عمر پچاسی برس ہے۔ ان کا نام عبدالغفور چودھری ہے۔ وہ ریٹائرڈ سوشل ورکر ہیں۔ میں ان کی دریا دلی اور سخاوت سے بہت متاثر ہوں۔ انہوں نے پاکستان میں بچوں کے لیے ایک سکول بنوا کر جو خدمتِ خلق کی ہے وہ قابلِ صد تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ ۔ ایک دفعہ میں انہیں سیر کے لیے NAIGARA-ON-THE-LAKEلے گیا۔ ڈنر کے دوران کہنے لگے ‘ ڈاکٹر صاحب نہ تو میں شاعر ہوں نہ ادیب نہ دانشور ۔ ہمارے نظریات بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ میں خدا پرست ہوں اور آپ انسان دوست ہیں لیکن پھر بھی آپ میرے ساتھ ۱۹۸۵ سے دوستی نبھائے جا رہے ہیں۔ اس کی کیاوجہ ہے؟ میں نے مسکرا کر کہا ‘چودرھری صاحب ! آپ ایک مخلص انسان ہیں۔ آپ انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ کیا یہ دوستی کے لیے کافی نہیں۔ آپ میرے محسن بھی ہیں۔ ’

‘ وہ کس طرح؟’ وہ متجسس تھے۔

‘چودھری صاحب۔ آج سے تیس برس پیشتر جب میرا پہلا شعری مجموعہ ۔ ۔ ۔ تلاش۔ ۔ ۔ چھپا تھا اس وقت مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ آپ وہ پہلے دوست تھے جنہوں نے اپنے شہر میں میری کتاب کی تقریب کا اہتمام کیا تھا اور میری بیس کتابیں بھی بکوائی تھیں۔ میں آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گا’

چودھری صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ‘کتابیں تو دس ہی بکی تھیں دس میں نے دوستوں کے لیے خود ہی خرید لی تھیں’

‘ چودھری صاحب۔ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔ اس خود غرض دنیا میں ایسے مخلص اور کرم فرما دوست کہاں ملتے ہیں؟

اب جبکہ میں آپ کو اپنے محسنوں سے تعارف کروا رہا ہوں میں آپ کو اپنے انکل سعید کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اگر وہ مجھ پر بر وقت احسان نہ کرتے تو نہ تو میں ڈاکٹر بنتا اور نہ ہی خدمتِ خلق کرنے کے قابل ہوتا۔ یہ کہانی ذرا لمبی ہے اس لیے حوصلے سے پڑھیے۔

جب میں نے پشاور کے ایڈورڈز کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا تو میں بہت خوش تھا کہ میری پوزیشن صوبے میں بیسویں تھی اور خیبر میڈیکل کالج میں سیٹیں ایک سو تھیں اس لیے مجھے پورا یقین تھا کہ مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے گا اور ایک دن میں ڈاکٹر بن جائوں گا لیکن جب میں نے داخلے کے لیے درخواست دی تو مجھے بتایا گیا کہ مجھے صرف اس صورت میں داخلہ مل سکتا ہے اگر میرا پشاور کا ڈومیسائل ہو۔

ایک دن میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر گیا اور ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ کی درخواست لے کر آیا۔ درخواست پر کی تو پتہ چلا کہ اس پر ایک جج کے دستخط کی بھی ضرورت ہے۔ میں چونکہ کسی جج کو نہیں جانتا تھا اس لیے ایک صبح میں مقامی کچہری چلا گیا۔ اس دن وہاں چار عدالتیں لگی ہوئی تھیں جن میں چار جج کام کر رہے تھے۔ میں ایک جج کی عدالت کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ تین گھنٹے کے بعد جب عدالت ختم ہوئی تو جج نے مجھے بلا کر وہاں کھڑے ہونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے ایف ایس سی میں بہت اچھے نمبر آئے ہیں ۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں جس کے لیے مجھے ڈامیسائل سرٹیفیکیٹ چاہیے اور اس کے لیے درخواست پر ایک جج کے دستخط۔

جج کہنے لگے کہ یہاں تو چار جج ہیں آپ میرے پاس کیوں آئے؟

میں نے کہا میں نے چاروں ججوں کو دور سے دیکھا۔ آپ سب سے زیادہ مہربان دکھائی دیے۔

جج مسکرائے اور میری درخواست پر دستخط کر دیے۔

جج کے دستخط اور ڈومیسائل ملنے کے باوجود مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملا۔

زندگی میں پہلی بار میں اداس و مغموم ہو گیا۔

اپنا دل بہلانے میں پشاور سے لاہور اپنی نانی اماں سے ملنے چلا گیا۔ ایک دن میں اپنے علائوالدین ماموں سے ملنے پرانی انارکلی گیا تو میری انکل سعید سے ملاقات ہوئی جو ہمیشہ مجھ سے بہت شفقت سے پیش آتے۔ انہوں نے میرا حال پوچھا تو میں نے انہیں اپنی ساری دکھ بھری بپتا سنا دی۔ کہنے لگے سہیل بیٹا کل تم میرے دفتر آئو۔

اگلے دن میں ان کے دفتر گیا تو انہوں نے میری زندگی کی ساری کہانی سنی۔ ۔ کیسے میرے والدین نے امرتسر سے لاہور ہجرت کی۔ ۔ ۔ کیسے میرے والد گورنمنٹ کالج میں ریاضی پڑھانے کوہاٹ گئے اور کیسے ہم پشاور آئے۔ پھر انہوں نے ایک پانچ صفحوں کا خط اپنے بڑے لیگل پیپر پر لکھا۔ پھر اس خط کی

ایک کاپی میڈیکل کالج کے پرنسپل کو

ایک کاپی پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اور

ایک کاپی صوبہ سرحد کے گورنر کو بھیجی۔

حسنِ اتفاق کہ ان دنوں ایر مارشل اصغر خان صوبہ سرحد کے گورنر تھے جو طلبا و طالبات کے بارے میں اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک سپیشل کمیٹی مقرر کی میرے والد عبالباسط صاحب کا انٹرویو لیا اور مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیا۔

میں نے انکل سعید کا شکریہ ادا کیا۔

اگر انکل سعید مجھے میرے انسانی حقوق سے آگاہ نہ کرتے تو نہ تو میں ڈاکٹر بنتا نہ ہی ماہرِ نفسیات اور نہ ہی دکھی انسانیت کی خدمت کر پاتا۔

اب جب میں دوسرے انسانوں کی’ چاہے وہ اپنے ہوں یا بیگانے‘ دوست ہوں یا اجنبی‘ خدمت کر رہا ہوتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں ان محسنوں کا قرض ادا کر رہا ہوں۔

کیا آپ نے کبھی اپنے محسنوں کا یاد کیا ہے؟ کیا آپ نے اپنے دل میں ان کا شکریہ ادا کیا ہے؟ کیا ان کا قرض اتارنے کے لیے کسی اجنبی کی خدمت کی ہے؟ اگر نہیں کی تو اب کر سکتے ہیں۔ بعض دفعہ دیر آید درست آید۔