آصف فرخی ایک مرتبہ مجھے فہمیدہ ریاض کے بارے میں تعزیتی مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا۔ قباحت اس میں صرف اتنی تھی کہ وہ اس وقت زندہ تھیں۔ بڑے لکھنے والے اس قسم کی ضمنی تفصیلات سے حوصلہ نہیں ہارتے۔ مگر میں اتنا بڑا بننے سے رہ گیا۔ ہوا اس طرح کہ کراچی کے ایک انگریزی روزنامے کے لیے میں مضامین، تبصرے وغیرہ لکھتا رہا ہوں۔ اس کے ادارتی عملے میں نووارد ایک خاتون نے مجھے ٹیلی فون کیا اور یہ اسائنمنٹ میرے سپرد کر دیا۔ یہ فرمائش سُن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ ”خیر تو ہے، کیا ہوگیا فہمیدہ ریاض کو؟ “ میں نے گھبرا کر پوچھا اور الفاظ جیسے میرے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔…
Social Plugin