زندگی گزارنے کیلئے طرح طرح کے کام کرنے
پڑتے ہیں_بلکیں اگر آپ کہیں سمندر میں ڈوب رہے ہیں اگر آپ کے ساتھ کوئی اور بهی ہے
جو آپ ہی کی طرح سمندر میں تیرنے کی کوشش کررہا ہے مگر وہ دل ہی دل میں سوچ رہا ہے
کہ میں ڈوب گیا،میں ڈوب گیا آپ بهی یہی سوچ رہے ہو جو وہ سوچ رہا ہے_اور اچانک آپ
کو کوئی ایسی چیز نطر آئے جسے دیکھنے کے بعد آپ کو امید کی کرن نظر آئے_تو آپ اس
پر خود بیٹهیں گے یا اپنے ساتھ ڈوبتے ہوئے دوسرے شخص کو احترام سے کہیں گیں کہ
جناب آپ بیٹھ جاہیں..میرے لئے اللہ مالک ہے.؟؟
آج عصب معمول میں اپنے دکان پر بیٹھا تها کہ اچانک مجہے ایک گاڑی کی ہارن اپنے کانوں میں سنائی دی تو میں جلدی جلدی اٹھ کے باہر کی جانب دوڑا کہ کوئی سودا لینے والا(گراک)ہوگا_(کیونکہ اکثر و بیشتر خریدار آتے ہیں وہ جلدی جلدی سودا سلف لیکے نکل جاتے ہیں_)میں نے دروازے سے باہر قدم رکھا ہی نہیں تها کہ وہ کہنے لگا عومر جلدی سے ایک گیلن پٹرول لیے آو کہ مجھے میت قبرستان لے جانا ہے_میں حیران ہوگیا کہ آج نا کوئی اعلان ہوا ہے نہ کسی نے اس مطلق بات کی کہ آ ج کوئی شخص اس بے رحم دنیا یا دنیا والوں کو چوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے_ تو میں نے اپنے دکان کے لڑکے(جو میرے دکان پہ کام کرتا ہے) سے کہا کہ جلدی جلدی ایک گیلن پٹرول لیکر آو_اور میں اس گاڑی والے سے پوچھنے لگا کہ آج کون فوت ہوا ہے؟ تو اس نے مجھے دہمی دہمی لہجے سے کہا کہ غلام شاہ_میں نے سوالیہ انداز میں کہا غلام شاہ؟اس نے کہا جی غلام شاہ_میں نے کہا غلام شاہ کون ہے ؟اس نے کہا (غلام شاہ استاد مجاہد غلام ) تبلہ والے کا باپ اور کون_ یہ خبر سن کہ میں حیران و پریشان سا رہ گیا_
اس نے مجھے جلدی جلدی پانچ سو کا نوٹ دیا اور کہا کہ جلدی سے اپنے پیسے لیکر مجھے میرے پیسے دو کیونکہ میت گهر میں ہے، جنازے کا وقت ہے اور مجھے میت قبرستان پوچانا ہے_ میں نے جلدی جلدی اسے اس کے بقیہ رقم دیے اور وہ چلا گیا_اب میں بیٹھا من ہی من میں پریشانی کی عالم میں سوچ رہا تھا کہ کیا زندگی ہے جو ہم گزار رہے ہیں؟ہم کہتے ہیں کہ انسانوں نے آج بانسبت پہلے کے ترقی کی ہے اور آج ہم ہر کسی کے ساتھ لمعہ بالمعہ انہی انسانوں کی بنائی گئی ٹیکنالوجی سے دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک کے خبر سے آشنا ہیں،مگر آج میرے اپنے محلے میں ایک شخص فوت ہوا ہے اورمجھے پتہ بهی نہیں_اور وہ شخص بهی کوئی پرایا شخص نہیں تها کوئی اپنا تها_ گیروں کی خبر اگر کسی کو نہیں بهی ہوتا تو بات سمجھ آجاتا ہے مگر کوئی اپنوں کی خبر اس ٹیکنالوجی و ترقی کی دور میں نہیں رکھتا ہو تو یہ بہت دکھ و شرم کی بات ہے_میرے اورمجاہدکے بیچ خونی رشتے تو نہیں ہیں،مگر میرے اور مجاہد کے درمیان وہ رشتہ ہے جو خونی رشتے سے بهی بڑه کر ہے_جی آں خونی رشتے سے بھی بڑھ کر''کیونکہ میں مجاہد کو پچھلے اٹھارہ سالوں سے جانتا ہوں،اور میں نے اپنے زندگی کے بہت سے خوشگوار لمعے اس کے ساتھ بہتائے ہیں_اپنے گهر سے لیکر اس کے گهر تک،استاد خورشید کے پہلے میوزک کلب سے لیکر مهر میوزک کلب تک اور میری بے سریلی آواز سے لیکر مجاہد کے تبلے تک کہ جس نے میرے بے سریلی آواز کو اپنے تبلے سے خوش نور بنایا تها_مگر،مگر افسوس سد افسوس کہ میں نے انہیں اپنے بے سریلی آواز کو خوش الہاں بنانے کے عوض ،یا ان بہتائے ہوئے خوشگوار لمعوں کے عوض انہیں کچھ نا دیا اگر دیا تو بس ایک انجان آدمی کی طرح اس کے بابا کے جنازے میں گیا وہ بهی نظریں چراتے ہوئے_!
مجھے معاف کر دینا مجاہد غلام جان
آج عصب معمول میں اپنے دکان پر بیٹھا تها کہ اچانک مجہے ایک گاڑی کی ہارن اپنے کانوں میں سنائی دی تو میں جلدی جلدی اٹھ کے باہر کی جانب دوڑا کہ کوئی سودا لینے والا(گراک)ہوگا_(کیونکہ اکثر و بیشتر خریدار آتے ہیں وہ جلدی جلدی سودا سلف لیکے نکل جاتے ہیں_)میں نے دروازے سے باہر قدم رکھا ہی نہیں تها کہ وہ کہنے لگا عومر جلدی سے ایک گیلن پٹرول لیے آو کہ مجھے میت قبرستان لے جانا ہے_میں حیران ہوگیا کہ آج نا کوئی اعلان ہوا ہے نہ کسی نے اس مطلق بات کی کہ آ ج کوئی شخص اس بے رحم دنیا یا دنیا والوں کو چوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے_ تو میں نے اپنے دکان کے لڑکے(جو میرے دکان پہ کام کرتا ہے) سے کہا کہ جلدی جلدی ایک گیلن پٹرول لیکر آو_اور میں اس گاڑی والے سے پوچھنے لگا کہ آج کون فوت ہوا ہے؟ تو اس نے مجھے دہمی دہمی لہجے سے کہا کہ غلام شاہ_میں نے سوالیہ انداز میں کہا غلام شاہ؟اس نے کہا جی غلام شاہ_میں نے کہا غلام شاہ کون ہے ؟اس نے کہا (غلام شاہ استاد مجاہد غلام ) تبلہ والے کا باپ اور کون_ یہ خبر سن کہ میں حیران و پریشان سا رہ گیا_
اس نے مجھے جلدی جلدی پانچ سو کا نوٹ دیا اور کہا کہ جلدی سے اپنے پیسے لیکر مجھے میرے پیسے دو کیونکہ میت گهر میں ہے، جنازے کا وقت ہے اور مجھے میت قبرستان پوچانا ہے_ میں نے جلدی جلدی اسے اس کے بقیہ رقم دیے اور وہ چلا گیا_اب میں بیٹھا من ہی من میں پریشانی کی عالم میں سوچ رہا تھا کہ کیا زندگی ہے جو ہم گزار رہے ہیں؟ہم کہتے ہیں کہ انسانوں نے آج بانسبت پہلے کے ترقی کی ہے اور آج ہم ہر کسی کے ساتھ لمعہ بالمعہ انہی انسانوں کی بنائی گئی ٹیکنالوجی سے دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک کے خبر سے آشنا ہیں،مگر آج میرے اپنے محلے میں ایک شخص فوت ہوا ہے اورمجھے پتہ بهی نہیں_اور وہ شخص بهی کوئی پرایا شخص نہیں تها کوئی اپنا تها_ گیروں کی خبر اگر کسی کو نہیں بهی ہوتا تو بات سمجھ آجاتا ہے مگر کوئی اپنوں کی خبر اس ٹیکنالوجی و ترقی کی دور میں نہیں رکھتا ہو تو یہ بہت دکھ و شرم کی بات ہے_میرے اورمجاہدکے بیچ خونی رشتے تو نہیں ہیں،مگر میرے اور مجاہد کے درمیان وہ رشتہ ہے جو خونی رشتے سے بهی بڑه کر ہے_جی آں خونی رشتے سے بھی بڑھ کر''کیونکہ میں مجاہد کو پچھلے اٹھارہ سالوں سے جانتا ہوں،اور میں نے اپنے زندگی کے بہت سے خوشگوار لمعے اس کے ساتھ بہتائے ہیں_اپنے گهر سے لیکر اس کے گهر تک،استاد خورشید کے پہلے میوزک کلب سے لیکر مهر میوزک کلب تک اور میری بے سریلی آواز سے لیکر مجاہد کے تبلے تک کہ جس نے میرے بے سریلی آواز کو اپنے تبلے سے خوش نور بنایا تها_مگر،مگر افسوس سد افسوس کہ میں نے انہیں اپنے بے سریلی آواز کو خوش الہاں بنانے کے عوض ،یا ان بہتائے ہوئے خوشگوار لمعوں کے عوض انہیں کچھ نا دیا اگر دیا تو بس ایک انجان آدمی کی طرح اس کے بابا کے جنازے میں گیا وہ بهی نظریں چراتے ہوئے_!
مجھے معاف کر دینا مجاہد غلام جان