امریکہ میں قائم ’فریڈم ہاؤس‘ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ، ’فریڈم آن دی نیٹ‘ میں 65 ملکوں میں انٹرنیٹ کی آزادی کا جائزہ لیا گیا ہے؛ جو عدد دنیا میں آن لائن صارفین کا 87 فی صد ہے
اسلام آباد —
ایک غیر جانبدار مطالعاتی رپورٹ پاکستان کو برازیل، میکسیکو اور شام کے چار ملکوں میں شامل شمار کرتی ہے، جہاں گزشتہ تین برسوں کے دوران انٹرنیٹ پر حساس موضوعات کے بارے میں تحریر پر لوگ قتل ہو چکے ہیں۔
امریکہ میں قائم ’فریڈم ہاؤس‘ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ، ’فریڈم آن دی نیٹ‘ میں 65 ملکوں میں انٹرنیٹ کی آزادی کا جائزہ لیا گیا ہے؛ جو عدد دنیا میں آن لائن صارفین کا 87 فی صد ہے۔
یہ حالیہ مطالعہ بنیادی طور پر جون 2016ء سے مئی 2017ء کے عرصے کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔
تحقیق میں اعلان کیا گیا ہے کہ لگاتار چھ برسوں سے، پاکستان اس ضمن میں ’’آزاد نہیں ہے‘‘۔ اس جانب دھیان مبذول کراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سماجی میڈیا کے کارکنان کو تشدد اور ڈانٹ ڈپٹ کے نتیجے میں انٹرنیٹ فریڈم میں بگاڑ آیا ہے۔
رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ ’’انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن، مسئلے کی جڑ سائبرکرائیم قانون، اور حکومتی ناقدین کے خلاف سائبر حملوں کے باعث صورت حال میں خرابی پیدا ہوئی ہے۔ ایسے میں جب پاکستان 2018ء کے انتخابات کی جانب آگے بڑھ رہا ہے، آن لائن سیاسی تقریر پابندی عیاں ہے‘‘۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کا زیادہ تر ہدف آن لائن صحافی اور بلاگر بنتے ہیں، جو سیاست، بدعنوانی اور جرائم پر لکھتے ہیں؛ ساتھ ہی وہ لوگ جو اپنے مذہبی خیالات کا اظہار کرتے ہیں، جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہوں یس جس سے اکثریتی آبادی کی رائے کو چیلنج لاحق ہوتا ہو۔
مطالعہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ردِ عمل میں حملوں پر اتر آنے والے نامعلوم رہتے ہیں۔ ’’تاہم، اُن کے اکثر اقدامات طاقت ور افراد یا اکائیوں کے سیاسی مفادات سے ملتے جلتے ہیں‘‘۔
رپورٹ میں تحقیق کی میعاد کے دوران پُرتشدد کارروائی یا دھمکیوں پر مشتمل واقعات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ تاہم، حکومتِ پاکستان نے رپورٹ سے متعلق ابھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔