کراچی میں طبعی موت



ایم کیو ایم
تصویر کے کاپی رائٹ
پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش ان کی گاڑی کی پچھلی نشست سے ملی تھی
جب یہ لازم ٹھہرا کہ ہم میں سے کچھ کو غیر طبعی موت مرنا ہے، بچوں کو، بوڑھوں کو، بچیوں کو اور بچیوں کی ماؤں کو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اپنی روزمرہ زندگی کے محاذِ جنگ میں بچوں کو بھیجنا چاہیے یا بوڑھوں کو۔
اس سوال کا ایک جواب ایک ناکام خودکش بمبار نے ٹی وی پر دیا تھا۔ وہ خود شکل سے گمشدہ سا بچہ لگ رہا تھا۔ جب انٹرویو کرنے والے میرے صحافی بھائی نے اس سے پوچھا کہ آپ کے خودکش حملوں میں معصوم بچے بھی مارے جاتے ہیں تو اس نے ایک سادہ دل لہجے میں پوچھا کہ ’یہ کون سی حدیث میں لکھا ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں؟
اس سے ملتا جلتا سوال کراچی میں بھائی آفاق احمد سے پوچھا۔ اگر آپ آفاق بھائی کو نہیں جانتے تو لگتا ہے کہ آپ نے کراچی کا پانی زیادہ دیر تک نہیں پیا۔ آفاق احمد وہ بھائی ہیں جو الطاف بھائی کے سب سے قریبی بھائی تھے، پھر باغی ہوئے اور دو ڈھائی سو ٹرکوں اور رینجرز کے چند ٹرکوں کی مدد سے تقریباً پورے کراچی پر قابض ہو گئے۔
نام اس کا بھی کراچی کے بھتہ اور بوری مافیا کے خلاف آپریشن تھا۔ اس کے بعد کراچی کی ایک ایک گلی میں دن میں 17 جنازے بھی اٹھے۔ آفاق بھائی کے آگے پیچھے چلنے والے ایک ایک کر کے مار دیے گئے۔ یہ کراچی کی سیاست کا ایک چھوٹا موٹا معجزہ ہی ہے کہ آفاق بھائی ہر مرتبہ بچ نکلے۔ اللہ ان کی اور ان کے دشمنوں کی بھی عمر دراز کرے۔
تو کراچی پر قبضے کے بعد آفاق بھائی لانڈھی میں اپنے ہیڈکوارٹر میں براجمان تھے۔ اس کا نام بھی یار لوگوں نے وائٹ ہاؤس رکھ چھوڑا تھا۔ اور سچ تھا کہ ایک مختصر عرصے کے لیے آفاق بھائی کراچی کی سپر پاور تھے۔ وائٹ ہاؤس کو جانے والے راستے پر 16، 17 کی عمر کے لونڈے کلاشنکوفیں اچھالتے پھرتے تھے۔
آفاق احمد
ایک مختصر عرصے کے لیے آفاق بھائی کراچی کی سپر پاور تھے
میں اپنے دوست اور انتہائی متحرک رپورٹر اویس توحید کے ہمراہ انٹرویو کے لیے پہنچا۔ اویس نے اپنے دردمندانہ انداز میں کہا کہ آفاق بھائی دیکھیں لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے بچوں کے ہاتھ میں بندوق تھما دی۔ آفاق بھائی ہنسے، فرمایا ’یار آپ صحافی لوگ بھی نہ بس کمال کرتے ہیں۔ میں ابھی 60، 60 کے لوگوں کو بندوقیں پکڑا دوں تو آپ کہیں گے آفاق نے بوڑھوں کو بندوقیں پکڑا دی ہیں۔ آپ لوگوں کی تسلی کبھی نہ ہو گی‘۔
آفاق بھائی کو تو کون جواب دے سکتا تھا لیکن ان کی بنائی ہوئی اور چھوڑی ہوئی پارٹی جس کے ساتھ اب لندن کا لیبل لگا دیا گیا، اس پر جب برا وقت آیا تو انھوں نے کراچی کے ایک بزرگ کو آگے کر دیا۔
پروفیسر حسن ظفر عارف 70 کے پیٹے میں تھے۔ اس عمر میں انسان کو آخری سفر کے لیے مشکوک حالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لڑائی جھگڑا بھی کیا کرے گا کہ چہرے پر زخم آ جائیں اور اسے رات گئے ابراہم حیدری میں کیا کام پڑ سکتا ہے۔
وہی ایک معصومانہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا ضرورت تھی۔ دو چار سال اور انتظار کر لیتے۔ جو شخص 50 سال کی جدوجہد میں انقلاب نہ لا سکا وہ عمر کے آخری برسوں میں کون سا لینن بن جاتا۔
اس طرح کے سوال کرنے والے وہی ہیں جو اکبر بگٹی کے چلے جانے کے بعد اسی طرح کی باتیں کرتے تھے کہ آخر ایک 85 سالہ بزرگ، چلیں مان لیتے ہیں اچھی خوراک پر پلا بزرگ، اپنے اونٹ پر بیٹھ کر کتنی دور جا سکتا تھا۔ ازل سے ابد تک قائم رہنے والی اس مملکتِ خداداد کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔
اس وقت بھی کچھ طبعی اور غیر طبعی کا جھگڑا تھا۔ کسی نے کہا تھا کہ ’ایسی چیز سے ہِٹ کروں گا کہ تمہیں خبر تک نہ ہو گی‘۔ بعد میں کسی نے کہا کہ ’وہ تو غار میں چھپا ہوا تھا، غار اس پر گر گئی‘۔
پھر وہی سوال کہ کیا ضرورت تھی؟
صوفی محمد
صوفی محمد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے سسر ہیں
کون کہہ سکتا ہے کہ اکبر بگٹی غار کی چھت گرنے سے پہلے آزاد بلوچستان کا خواب دیکھ رہے تھے یا اپنے نواسے نواسیوں کو یاد کر رہے تھے۔ کسے خبر کہ پروفیسر حسن ظفر عارف گاڑی کی پچھلی نشست پر ’دراز جیے مہاجر‘ کے نعرے لگا رہے تھے یا اس بیٹی کے بارے میں سوچ رہے تھے جو ولایت سے انھیں ملنے آئی تھی۔
ملک دشمنوں کا دفاع کون کر سکتا ہے۔ غاروں میں اڑا دو یا گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا دو لیکن بزرگوں کا کچھ خیال کر لیا کرو۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہماری ماں جیسی ریاست جب چاہے جس پر چاہے مہربان ہو سکتی ہے۔ ماضی میں کچھ بھی کیا ہو، بزرگی کا احترام کر سکتی ہے۔
مرحوم پروفیسر کی طرح مولانا صوفی محمد بھی بزرگ ہیں بلکہ وہ تو 90 کے پیٹے میں ہیں۔ ان پر بھی الزام تھا وہی پرانا، ریاست سے بغاوت کا۔ کئی ہزار نوجوانوں کو افغانستان بھیج کر ہزاروں خاندانوں کی نسلیں برباد کرنے کا اور ان کے ایک قریبی رشتے دار پر پشاور میں ہمارے بچوں کے قتلِ عام کا۔

لیکن ریاست نے دیکھا کہ اس عمر میں سزا دینے کا کیا فائدہ اور صحیح سوچا کیونکہ اب جب خدا کے پاس جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے تو سب سے بہتر حساب کتاب تو وہی کر سکتا ہے۔
کمزور ایمان والے بھی موت کو برحق سمجھتے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ اتنا تو کر دے کہ جب اس عمر کے بزرگ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوں تو لوگ دعائے خیر پڑھ کر گھروں کو جائیں۔ کسی کے کفن پر تالا نہ لگا ہو، کسی کے جنازے پر آتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں خوف نہ ہو اور ہمارے جیسے موسمی مرثیہ نگار مرحوم کی طبعی اور غیر طبعی موت کے امکانات پر فضول بحث نہ کریں۔