راضیہ سید
ہمارے محلے میں آنٹی خورشید کے گھر کام کرنے والی
خاتون نذیراں آتی ہے جس کی آمد کی اطلاع پورے محلے والوں کو ہو جاتی ہے ا س
کی وجہ یہ نہیں کہ نذیراں ہڈ حرام ہے یا اپنی مالکن سے بدظن ہے بلکہ وجہ محض
یہ ہے کہ آنٹی اس سے کام کرانے کے ساتھ ساتھ اس کی عزت نفس کو بھی مجروح کرتی
رہتی ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو ایک غریب کے پاس سوائے عزت نفس کے اور ہوتا ہی کیا
ہے ؟۔
مجھے نذیراں کی غربت پر بہت ترس آتا ہے جس کی وجہ سے
اسے یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ، کل بھی اس کی حالت دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا
کہ اس کی حالت تو بالکل غلاموں جیسی ہے ہاں فرق صرف یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں میں
قدیم یونانی قیدیوں کی طرح بیڑیاں اور زنجیریں نہیں ہیں ۔
مانیں نہ مانیں ہمارے معاشرے میں غلامی اب تک کسی نہ
کسی صورت میں موجود ہے ، ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تین کروڑ سے
زائد افراد اب تک غلام ہیں ۔ان میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں
جبکہ ستر لاکھ سے زائد مردوں اور عورتوں کی ہر سال سمگلنگ کی جاتی ہے ۔ اقوام
متحدہ کے ادارے یہ ضرور بتاتے ہیں کہ سالانہ بیس لاکھ بچے دنیا بھر میں فروخت ہوتے
ہیں لیکن دوسری طرف ان محکوم بالخصوص مسلم اقوام کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کیا
جاتا ۔ جنہیں معاشی طور پر مفلوج کر دیا جاتا ہے جن کی زندگیوں کی قیمت تک وصول کر
لی گئی ہوتی ہے ۔
ہم سب بھی بطور مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں
غلامی کا کوئی تصور نہیں اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے حضرت
بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہہ کو موذنِ رسول کا خطاب دیا ، ہم اپنے گھروں میں
خدمت گذاروں اور ملازمین کو جان بوجھ کر ڈانٹتے ہیں ، انھیں غلام سمجھ کر ان کی
عزت نفس کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں ، ان پر تشدد کرتے ہیں اور خود کو یہ تسلیاں
دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے ۔
اگر ہم سوچیں ناں تو ہم خود غلام ہیں ، ہماری سوچ محدود
ہے ، ہم اپنی برابری کے لیول پر ان افراد کو لانا نہیں چاہتے ، یہ نہیں سوچتے کہ
ان کی مجبوریوں نے انھیں اس حال تک پہنچایا ہے ، ہم انسانیت کے درجے سے گرنا تو
پسند کرتے ہیں لیکن اپنی غلامی کی نادیدہ زنجیریں کبھی توڑنا پسند نہیں کرتے ‘ اصل
غلام تو ہم ہی ہیں ناں ۔
بشکریہ ARYNEWS