اس سوال سے پہلے وہ میرے بازوؤں اور ماتھے پر ای سی جی جیسی ٹونٹیاں چپکا چکا تھا اور میرے پیٹ اور سینے کو دو سٹریپس میں جکڑ چکا تھا۔ میرے پاس جھوٹ پکڑنے والے اس ٹیسٹ سے پہلے پوچھے جانے والے اس سوال کے کئی جوابات تھے لیکن میں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا کیونکہ کوئی آدھ گھنٹا پہلے میں ہتھکڑیوں میں بندھے ہاتھوں اور منہ پر چڑھے کپڑے کے ساتھ گھنٹے بھر کا ایک ایسا انٹرویو دے کر آیا تھا جس کے سوالوں کا جواب غلط یا صحیح ہونے سے قطع نظر جواب ملتے ہی اور کبھی کبھی اس سے بھی پہلے مجھ پر تھپڑوں، مکوں، ڈنڈوں، پائپوں کی ایک بارش سی ہوتی تھی، جس کے دوران وقفے وقفے سے مجھے کرنٹ لگا کر شاید بجلی چمکنے کی کسر پوری کی جاتی تھی۔
گرجنے والوں کی تعداد میرا اندازہ ہے کہ پانچ سے چھ رہی ہو گی۔ اس انٹرویو کا آخری سوال یہ تھا کہ تمہاری لاش کہاں پھینکیں چنیوٹ یا فیصل آباد۔ مجھے یاد ہے میں نے جواب میں چنیوٹ کہا تھا۔ سوچا تھا چھوٹا سا شہر ہے مجھے اور میرے خاندان کو لوگ جانتے ہیں سو وہاں لاپتہ لاش کے طور پر دفنائے جانے کے امکانات کم ہوں گے۔
میں مرنے سے پہلے اپنی ماں کی اذیت کو اتنا کم تو کر ہی سکتا تھا کہ تشدد زدہ ہی سہی میرا چہرہ تو وہ دیکھ لیتی اور زاہد بلوچ کی ماں کی طرح اسے یہ نہ سوچنا پڑتا کہ پتہ نہیں میں زندہ بھی ہوں یا نہیں اور ہوں تو کس حال میں۔ وہی زاہد بلوچ کی ماں جس کا ذکر میں نے اپنے ایک بلاگ میں کیا تھا۔ وہی بلاگ جس پر سوال کرتے ہوئے مجھ پر تشدد کرنے والے پوچھ رہے تھے کہ تمہیں بلوچوں کا درد بہت محسوس ہوتا ہے ہمارا درد محسوس نہیں ہوتا اور میں سوال کا جواب سوچنے کے بجائے یہ سوچ رہا تھا کہ ہاتھوں میں ہتھکڑی اور دماغ میں پروفیسر، تھیٹر آرٹسٹ، شاعر وغیرہ جیسی لغو چیز ہونے کا زعم ہو تو منہ پر تھپڑ کھا کر درد زیادہ محسوس ہوتا ہے یا ذلت۔
میں کہاں پھنس گیا ہوں، اس کا احساس کسی حد تک ان 21 دنوں کے اختتام پر ہوا جب باہر نکل کر ویب اور برقی میڈیا کے محاذ پر دفاع وطن کے فرائض انجام دینے والے پیجز اور چینلز پر اپنے خلاف چلنے والی توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات کی مہم دیکھی لیکن اس الزام سے بچ نکلنے کا راستہ بھی میں ایک بلاگ میں لکھ چکا تھا جو ’ایک توہین آمیز بلاگ‘ کے نام سے تنقید نامی رسالے میں چھپا تھا جس کی ادارت کرنے کا الزام بھی الزامات کی اس لمبی فہرست میں سے ایک تھا جو مجھ پر عائد لیے گئے۔
اسی بلاگ کو پڑھ کر شاید مجھ سے تفتیش کرنے والوں نے چلتے چلتے آخری پٹی بندھی ملاقات میں وارننگ یہ دی تھی کہ دیکھو باہر جا کر مولوی نہ بن جانا لیکن مذہب کا کاروبار کرنے میں جو ذلت ہم جیسوں کو محسوس ہوتی ہے وہ منہ پر تھپڑ کھانے سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔
تھپڑ کھانے سے یاد آیا کہ ذلت کا تو ایک تسلسل تھا لیکن تشدد کے علاوہ جو چیز سیشنز میں ہوتی تھی وہ تفتیش تھی۔ مسئلہ تفتیش کا یہ ہے کہ تفتیش اس وقت تشدد سے بھی زیادہ اذیت ناک ہوا کرتی ہے جب آپ کے پاس ماننے کے لیے کچھ نہ ہو۔ سو تفتیش کے سیشنز نظموں کی تشریح کرتے یہ سمجھانے میں گزرا کرتے تھے کہ جو میں نے کہا وہ آپ نے سمجھا نہیں اور جو آپ سمجھے وہ میں نے کہا نہیں۔
خدا بھلا کرے ہمارے کالے خان کا کہ کم از کم ایک تفتیش کار ایسا بھی متعین کیا گیا تھا جس کا فرض یا پھر شوق لیکچر دینا تھا۔ ممکن ہے ان صاحب نے سمجھا ہو کہ پروفیسر صاحب کی تربیت میں جو کمی رہ گئی تھی وہ تو پٹائی کے ذریعے پوری ہو رہی ہے تعلیم میں جو کسر ہے وہ اسے اپنے لیکچرز کے ذریعے پورا کر ڈالیں۔
سو سیاست دانوں کی بدکاریوں سے جمہوریت کے نقائص اور شاعروں کی بے راہ روی سے لبرل ازم کے نقصانات اور 18ویں ترمیم سے ڈان لیکس تک کم سے کم میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ اذیت کے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے میں اب بھی کسی وقت مسکرا دیتا ہوں تو یہی سوچ کر کہ سلمان حیدر تو کہاں پھنس گیا تھا۔
٭ آج سے ٹھیک ایک برس قبل پاکستان میں حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم چند سماجی کارکن اور بلاگرز لاپتہ ہوئے تھے۔ ان افراد کی گمشدگی کا الزام ملک کے خفیہ اداروں پر لگایا گیا جس سے وہ انکار کرتے رہے۔ ان افراد کو تقریباً تین ہفتے تک قید رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سلمان حیدر بھی ان افراد میں شامل تھے۔ اس واقعے کا ایک برس مکمل ہونے پر انھوں نے بی بی سی اردو کے لیے یہ تحریر لکھی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو