تصویر کے کاپی رائٹ
پہلے چالیس برس پاکستان کے بے نتھے
قومی گھوڑے کو اصطبل کے کھونٹے پر باندھنے اور سعادت مند بنانے کی تربیت میں گزر
گئے۔ بہت محنت ہوئی اس گھوڑے کو چابک کے اشارے پر چلانے میں۔
کیا اسپِ بے لگام تھا زرا زرا سے بہانے رسی تڑاتے، بات
بے بات ہنہناتے اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا۔ سرخ آنکھوں میں ایسا جلال کہ سائیس
چوکڑی بھول جائے اور پٹھ پر ہاتھ رکھتے گھبرائے۔
پھر کسی جہاندیدہ گھڑ پال نے مشورہ دیا کہ سبز چارہ کم
کرتے چلے جاؤ، روزانہ کی ٹہل کو ہفتہ وار میں بدل دو، دس پندرہ دن میں ایک بار
بھوسے میں ہلکی پھلکی افیون بھی ملا دو۔ چابک پیٹھ اور ٹانگوں پر ہر وقت نہ مارو
بلکہ کان کے قریب وقفے وقفے سے سڑاک سڑاک کرتے رہو تاکہ جانور کو مسلسل احساس رہے
کہ چابک بس اب پڑا کہ جب پڑا۔جانور کے لیے چابک سے زیادہ موثر اس کے پیٹھ اور
ٹانگوں پر پڑنے کا ڈر ہوتا ہے۔
یہ سب کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب تم گھوڑے کو کبھی
کبھار سبز چارہ دو گے، یا ٹہلائی کرواؤ گے، یا پیٹھ اور ٹانگوں پر خرخشہ پھیرو گے
یا سال چھ مہینے میں ایک بار مالش بھی کر دو گے تو جانور اسے بھی غنیمت سمجھ کے
خوش رہے گا اور اسے گمان رہے گا کہ سائیس صرف ظالم ہی نہیں۔ کہنے پر چلتے رہو تو
مہربان بھی ہے۔
یوں تمہارے جانور کا جسم تو گھوڑے کا ہوگا پر نفسیات
گدھے والی ہو جائے گی۔ اس کے بعد بھلے اس کی پیٹھ پر سواری کرو کہ سرکس میں کرتب
دکھانے کے لیے استعمال کرو یا مسلسل اصطبل میں رکھو۔ گھوڑا ہر حال میں احسان مند
رہے گا۔
وہ قوم جو 30 برس پہلے تک ناک پے مکھی نہیں بیٹھنے دیتی
تھی۔ اس کا یہ حال ہوگیا کہ چابک چھوڑ چابک کے سائے سے بھی ڈر جاتی ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹ
کیا ٹھاٹ
تھے جب اسی قوم نے چینی روپے سے سوا روپے ہو جانے پر ایوب حکومت کی کھٹیا کھڑی کر
دی تھی
جب بھی میرے محلے میں گٹر کا پانی سڑک پر کھڑا ہوجاتا۔
لونڈے یونیورسٹی روڈ پر احتجاجی ٹائر رکھ کے انھیں آگ لگا دیتے۔ اب اہلِ محلہ اس
پر خوش ہونا سیکھ گئے ہیں کہ مہینے دو مہینے بعد ہی سہی کم ازکم گٹر کھل تو گیا،
چند دن کے لیے سہی سڑک خشک تو ہوئی۔
کیا ٹھاٹ تھے جب اسی قوم نے چینی روپے سے سوا روپے ہو
جانے پر ایوب حکومت کی کھٹیا کھڑی کر دی تھی اور آج موٹر سائیکل پر آنے والے دو
لڑکے میرے گھر کے سامنے والی بھری مارکیٹ کی بیکری سے پچاس ساٹھ ہزار روپے کیش
نہایت اطمینان سے لے گئے۔ ان کے جاتے ہی باقی دکاندار اکٹھے ہو گئے اور لٹنے والے
کو دلاسہ دینے لگے۔ اچھا ہے تو نے پیسے دے دئیے، جان سے زیادہ تھوڑی ہیں، بس بھول
جا، پرچہ کٹوانے کی ضرورت نہیں اور لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اللہ مالک ہے۔
تین دن پہلے کراچی سے تین بلوچ طالبِ علم غائب ہوگئے
اور پھر گھر واپس آ گئے۔ کوئی نہیں پوچھ رہا کہ کون کس قانون کے تحت لے گیا، کیوں
لے گیا، کیوں چھوڑ دیا۔ ان بچوں کے گھر والوں، اہلِ محلہ سے لے کر میڈیا اور سوشل
میڈیا تک سب ان کے اتنی جلد اور زندہ سلامت لوٹ آنے پر خوش ہیں اور مبارک باد دے
رہے ہیں اور چھوڑ دینے والوں کے احسان مند ہیں۔
دن یوں گزرتا ہے اور شام کو ہم سب ٹی وی دیوتا کی آرتھی
اتارتے ہیں اور نیند آنے تک چرنوں میں بیٹھے رہتے ہیں ۔۔۔ٹرمپ خود کو آخر سمجھتا
کیا ہے، ہم ایک خودار قوم ہیں جو کبھی اپنی غیرت اور عزت پر آنچ نہیں آنے دیں گے،
بیس کروڑ غیور لوگوں پر مشتمل ایٹمی قوت کے صبر کو آزمایا نہ جائے۔ وغیرہ وغیرہ
وغیرہ ضرب بیس کروڑ ۔۔۔
اور دور کسی اصطبل میں کھونٹے سے بندھے گھوڑوں میں سے
کوئی ایک اپنا تھوبڑہ گھپ اندھیرے میں دائیں بائیں ہلاتے ہوئے ہلکے سے بھررر کرتا
ہے اور پھر چند گھنٹے بعد ایک اور صبح سر پے تن جاتی ہے۔