سلیم قاضی
تصویر کے کاپی رائٹFREEDOM HOUSEجمہوریت
کا بحران
دنیا بھر میں جمہوریت مخالف رجحانات بڑے تشویشناک انداز
میں بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے مطلق العنان حکمرانی اور عدم استحکام معمول بنتے جا
رہے ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں لوگوں کو گذشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی اور شخصی
آزادی کی ضمانت حاصل تھی، اب ان ممالک میں بھی عوام کو دوسری جنگ کے عظیم کے بعد
کے سب سے بڑے جمہوری بحران کا سامنا ہے اور جوں جوں امریکہ اپنے روائتی قائدانہ
کردار سے کنارہ کشی کر رہا ہے، دنیا ایک تاریک تر دور کی جانب بڑھ رہی ہے۔
’دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کے
فروغ‘ کے لیے کام کرنے والے ایک امریکی تھِنک ٹینک فریڈم ہاؤس کے عالمی جمہوریت کے
سالانہ جائزے کے نتائج کے مطابق دنیا میں جمہوریت کو ایک بحران کا سامنا ہے۔ جائزے
کے مطابق سنہ 2017 وہ مسلسل 12واں سال تھا جب دنیا بھر میں جمہوریت تنزلی کا شکار
رہی۔ اس عرصے میں ان ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی جہاں سیاسی حقوق اور شخصی
آزادیوں پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ کچھ ممالک میں حالات بہتر ہوئے ہیں
لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق آج سے ربع صدی پہلے، جب سرد جنگ ختم
ہوئی تو ایسا لگتا تھا کہ اب آمریت اور مطلق العنان حکومتیں ماضی کا قصہ بن جائیں
گی اور بیسویں صدی کی نظریات کی عظیم جنگ آخر کار جمہوریت نے جیت لی ہے، لیکن آج
دنیا بھر میں جمہوریت پہلے کے مقابلے میں کمزور تر ہو چکی ہے۔
جن ممالک میں جمہوریت زوال کا شکار ہے ان میں اکثریت
ایسے ممالک کی ہے جن سے جمہوریت کے حوالے سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھی۔
وینز ویلا، جو ایک پھلتا پھولتا جمہوری ملک تھا، اب وہاں فوجی آمریت کا دور ہے۔
صدر رجب طیپ اردوگان نے اپنے ہزاروں حقیقی اور خیالی مخالفین کو جیلوں میں پھینک
کر اُس ترکی کو ایک ایسے مسلمان اکثریتی جمہوری ملک سے آمریت میں بدل دیا ہے جس سے
دنیا کو بہت امید تھی۔ اس کے مقابلے میں وہ ممالک جہاں جمہوریت کو ماضی میں خطرے
کا سامنا تھا، وہاں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان ہے جس کی درجہ
بندی میں بہتری آئی ہے لیکن پاکستان اب بھی ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جو
فریڈم ہاؤس کے مطابق جزوی طور پر آزاد ہیں۔
ہنگری اور پولینڈ، جو ماضی میں بہت کامیابی سے اشتراکیت
کے دور سے نکل کر جمہوری دور میں داخل ہو چکے تھے، اب وہ بھی ان لبرل ممالک میں
شامل ہو چکے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کو حقارت سے
دیکھا جاتا ہے۔ سنہ 2017 میں تھائی لینڈ کی فوج نے ملکی سیاست میں اپنے عمل دخل
میں مزید اضافہ کرلیا ہے، جبکہ میکسیکو میں ملکی اشرافیہ کی بدعنوانیوں نے قانون
کی حکمرانی کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔
فریڈم ہاؤس کے سالانہ جائزے کے
چیدہ چیدہ نکات درجہ ذیل ہیں:
§
سنہ
2017 میں دنیا میں جمہوریت کو گذشتہ کئی عشروں کے سب سے بڑے بحران کا سامنا رہا،
اور اس دوران آزادنہ و منصفانہ انتخابات، اقلیتوں کے حقوق، پریس کی آزادی، اور
قانون کی حکمرانی جیسی بنیادی جمہوری اقدار مسلسل دباؤ کا شکار رہیں۔
§
دنیا
کے 71 ممالک میں سیاسی حقوق اور شخصی آزادی میں کمی آئی جبکہ صرف 35 ممالک میں ان
شعبوں میں بہتری دکھائی دی ۔ یہ سال عالمی آزادی کے حوالے سے مسلسل ایسا 12واں سال
رہا جس میں ان اقدار میں زوال دیکھنے میں آیا۔
§
سنہ
2017 میں امریکہ کے اندر سیاسی حقوق اور شخصی آزادی میں تنزل کے ساتھ ساتھ امریکہ
نے اپنے اس روایتی کردار سے ہاتھ کھینچ لیا جس میں اسے دنیا بھر میں جمہوریت اور
جمہوری روایات کے فروغ کا چیمپئن سمجھا جاتا تھا۔
فریڈم ہاؤس کا کہنا ہے کہ جمہوری ممالک میں جمہوریت کو
درپیش مسائل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں ایسے عوامیت پسند یا پاپولِسٹ رہنما
مقبول ہوتے جا رہے ہیں جو تارکین وطن کے خلاف ہیں اور بنیادی اسنانی حقوق کی پرواہ
نہیں کرتے۔ اس کی حالیہ مثال ہالینڈ، فرانس، جرمنی اور آسٹریا میں انتہائی دائیں
بازو کی جماعتوں کے ووٹوں میں کئی گنا اضافہ ہے۔ اگرچہ آسٹریا کے علاوہ، باقی
یورپی ممالک میں یہ جماعتیں حکومت بنانے میں ناکام رہیں، لیکن انتخابات میں ان کی
کامیابی کے نتیجے میں ان ممالک میں پرانی سیاسی جماعتیں کمزور پڑ گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پریشان کُن بات یہ ہے کہ آج
کل کے نوجوان، جنھیں فسطائی یا فاشسٹ حکمرانوں اور کیمونسٹ حکومتوں کے خلاف لوگوں
کی طویل جد وجہد کے بارے میں علم نہیں، ان کا جمہوریت پر اعتبار اٹھتا جا رہا ہے
اور وہ جمہوریت کے خاطر کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ اس
کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں میں جمہوریت کے حوالے سے ایک خطرناک لاپرواہی پروان
چڑھ رہی اور ان کے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے ہاں جمہوریت ہے یا
نہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو