تصویر کے کاپی رائٹPOLICE
پاکستان کے صوبے پنجاب کے وزیر
اعلیٰ شہباز شریف نے کہا ہے کہ پولیس نے قصور میں سات سالہ بچی زینب کے قاتل کو
چودہ دن کی انتھک محنت کے بعد گرفتار کر لیا ہے۔
لاہور میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ کے
ہمراہ زینب کے والد بھی موجود تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ گرفتار کیے جانے والے شخص کا نام
عمران علی ارشد ہے اور اس کی عمر 24 سال ہے جو ایک سیریل کلر ہے۔
شہاز شریف نے تفتیش کی تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ قاتل کا
ڈی این اے ٹیسٹ سو فی صد میچ کر گیا ہے۔
شہباز شریف کے مطابق تحقیقاتی مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور
اب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران کے خلاف مقدمہ چلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میرا بس چلے تو اسے چوک پر پھانسی
پر لٹکاؤں'۔
انھوں نے اس بارے میں مزید کہا 'سخت سے سخت سزا دینے کے
لیے قانون میں تبدیلی بھی کرنا پڑی تو کریں گے'۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو اس قاتل کو قرار واقعی سزا
دینے کی اپیل کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اگر ممکن ہو تو اس شخص کو چوراہے پر
پھانسی دی جائے جو کہ زینب کے والد کی بھی خواہش ہے۔
پولی گراف ٹیسٹ میں عمران کے بیان کا ریکارڈ موجود ہے
جس میں اس نے اپنی 'درندگی' کا اعتراف کیا ہے۔
شہباز شریف نے تحقیقات میں مدد فراہم کرنے پر آرمی چیف
کا بھی شکریہ ادا کیا۔
قبل ازیں پنجاب کی حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا تھا کہ
زینب انصاری کیس میں پولیس نے ایک اہم گرفتاری کی ہے جس کی تفصیلات آئندہ چند
گھنٹے میں ڈی این اے کی حتمی رپورٹ کے بعد فراہم کی جائیں گی۔
پولیس کے مطابق گرفتار کیا جانے والا ملزم قصور کے
علاقے روڈ کوٹ کا ہی رہائشی ہے اور اسے پیر کی شب حراست میں لیا گیا۔
زینب انصاری کو رواں ماہ کے آغاز میں کوٹ روڈ پر واقع
ان کی رہائش گاہ کے قریب سے اغوا کر لیا گیا تھا اور ان کی لاش چند دن بعد ایک
کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
زینب کی لاش ملنے کے بعد قصور سمیت ملک کے مختلف شہروں
میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس
معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
اتوار کو چیف جسٹس نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے
ادراوں کو مزید 72 گھنٹے کی حتمی مہلت دی تھی جو آج ختم ہو رہی ہے۔
پنجاب حکومت کے ترجمان محمد احمد خان نے ذرائع ابلاغ کو
بتایا ہے کہ ملزم کو اس سے پہلے بھی حراست میں لیا گیا تھا تاہم ابتدائی پوچھ گچھ
کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔
تاہم اب اسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ترجمان کا
کہنا تھا کہ ڈی این اے کی حتمی رپورٹ منگل کی شام چھ بجے تک متوقع ہے جس کے بعد
مزید تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جو اسے
ملزم قرار دیتے ہیں، تاہم حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی درست طریقے سے تفتیش کو آگے
بڑھایا جا سکتا ہے۔‘
ترجمان حکومتِ پنجاب کے مطابق ملزم کو پولیس نے پاک پتن
سے حراست میں لیا اور وہ حلیہ تبدیل کرتا رہتا تھا۔
تھانہ اے ڈویژن کی پولیس نے ملزم کو حکومتِ پنجاب کی
جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بھی پیش کیا ہے۔
محمد احمد خان کے مطابق زینب کیس کی تفتیش کے دوران
قصور میں 600 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔
خیال رہے کہ اس ملزم کی گرفتاری پر زینب ہی نہیں، ان
سات بچیوں کے مقدمات کا حل بھی منحصر ہے جنہیں قصور میں گذشتہ دو برس کے دوران
اِغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے تین خوش
قسمتی سے زندہ بچ گئیں۔
قصور پولیس کے مطابق ان تمام وارداتوں میں ایک ہی شخص
ملوث ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قصور کے ضلعی پولیس آفیسر زاہد علی مروت نے
بتایا تھا کہ اس امر کی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی جا چکی ہے۔
'ان کے مطابق 'مردہ اور زخمی حالت
میں ملنے والی تمام بچیوں کے جسموں سے حاصل کیے جانے والے ڈی این اے کے نمونے آپس
میں مطابقت رکھتے ہیں یعنی وہ ایک ہی شخص کے ہیں۔'
بچیوں کے اغوا اور ان سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کی یہ وارداتیں
زینب انصاری کی رہائش گاہ کے تقریباً تین مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہوئی تھیں۔
پولیس کے مطابق قصور میں سنہ 2015 سے لے کر اب تک چھوٹی
بچیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کر کے قتل کرنے کی 12 وارداتیں ہو چکی ہیں۔
ان میں سے تین وارداتوں میں ملزمان کو گرفتار کیا جا
چکا ہے جبکہ آٹھ وارداتیں ایسی ہیں جن میں مجرم عدم گرفتار تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو