یہ بالی وڈ ہے یہاں سیکس کی بات کرنا ممنوع ہے


کرینہ
تصویر کے کاپی رائٹ بالی ووڈ میں ہیروئین کے نیم عریاں لباس کی ضرورت کیوں
یہ بالی وڈ ہے یہاں سیکس کے بارے میں بات کرنا ممنوع ہے۔
لیکن اگر آپ بالی وڈ فلموں کے گانے دیکھیں جہاں ہیروئنیں نیم برہنہ رقص کرتی ہیں، لمبی لمبی سانسیں لے کر ہونٹ چباتی ادائیں کیا ظاہر کرتی ہیں اور اکثر خواتین کے کردار مایوس کرتے نظر آتے ہیں۔
جب بالی وڈ میں خواتین کی عکاسی کی بات کی جاتی ہے تو اس طرح کے مناظر نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ در حقیقت نہ صرف بالی وڈ بلکہ تمام بڑی بھارتی فلم صنعتوں میں ہیروئنیں آرائشی سامان کی طرح ہیں۔
ہیرو مرکزی کردار ہوتا ہے لیکن ہیروئن کو صرف پیار اور پوجا کرنے کے لیے ہی رکھا جاتا ہے۔
جب فلم سازوں نے فلموں کے ذریعے ذات اور طبقے کے مسائل اٹھائے تو ان فلموں میں مرکزی کردار نبھانے والی ہیروئنوں کے کام کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ سراہا بھی گیا۔ ہالی وڈ میں بھی ایک زمانے میں ایسا دور آیا تھا۔
کنگنا
تصویر کے کاپی رائٹ فلم راسکل میں کنگنا مرکزی کردار میں تھیں
لیکن 1950 کے بعد حالات بدل گئے۔ 1960 کے دوران اور بعد میں، جب فلموں میں تفریح اہم موضوع بن گیا تو پھر تمام نظریں ہیرو پر آ کر رک گئیں اور ہیروئنوں کی حیثیت ایک طرح سے دوسرے درجے کے شہری جیسی ہو گئیں۔
ماں اپنے بیٹے کے لیے گاجر کا حلوہ بناتی ہے، بہنوں کے تحفظ کے لیے بھائی کی کلائی پر راکھی باندھی جاتی ہے، بیوی اور محبوبہ ہیرو کی لمبی زندگی کے لیے ورت رکھتی ہے۔
1990 کی دہائی میں، کرن جوہر جیسے فلمساز نے فلم ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ ریلیز کی جس میں شاہ رخ خان کو اپنا سچا پیار ملتا ہے۔
اس فلم کی ہیروئن کاجول کا کردار ایک ٹام بوائے کا ہے جس کے چھوٹے بال ہیں اور وہ بہت اچھا باسکٹ بال کھیلتی ہے۔ لیکن جب وہ ایک دلکش شیفون کی ساڑھی پہنتی ہے اور ہیرو کو میچ جیتنے دیتی ہے تبھی ہیرو کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔
کرن جوہر اب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ٹام بوائے لڑکی کو کم اہمیت دے کر انھوں نے صحیح نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ پیغام ملا تھا کہ جو لڑکیاں ساڑھی پہنتی ہیں اور شرمیلی ہوتی ہیں وہی لڑکوں کو لبھاتی ہیں۔
پلابیتا بورٹھاکر
تصویر کے کاپی رائٹ لِپ سٹک انڈر مائی برقعہ ایک متنازع فلم تھی
ہیروئین کا سفید ساڑھی پہن کر کسی جھرنے کے نیچے کھڑے ہونا تو اب نہیں رہا لیکن اب ہیروئینوں کو آدھے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ ان کے جسم کو کیمرے سے غلط انداز میں دکھایا جاتا ہے اس کے علاوہ فحش اور ذو معنی گانے اور بول اب ہندی فلموں کا حصہ بن چکے ہیں۔
جو فلمساز لیگ سے ہٹ کر فلمیں بناتے ہیں وہ ہمیشہ حاشیے پر رہتے ہیں لیکن اب ایک نئے اور کھلے ذہن والے بھارت کی بات کرنے والی فلمیں بھی اپنی جانب توجہ مبذول کروا رہی ہیں۔
رتنا شاہ
تصویر کے کاپی رائٹ لِپ سٹک انڈر مائی برقعہ میں رتنا شاہ نے ایک ادھیڑ عمر عورت کا کردار نبھایا تھا
یہ خوشی کی بات ہے کہ 2017 خواتین کے مضبوط کردار والی فلموں کے حوالے سے بہت اچھا رہا ہے۔
فلم 'لپسٹک انڈر مائی برقع‘، ’انار کلی آف آرا‘ اور ’تمھاری سلو‘ جیسی فلمیں لوگوں نے پسند کیں اور اچھا کاروبار کر گئیں۔
اسی طرح کمرشل فلموں میں دیکھا جائے تو اس سال کی سب سی بڑی ہٹ 'ٹائیگر زندہ ہے' میں قطرینہ کیف صرف سلمان کے ارد گرد ہونے کے بجائے ایکشن کرتی نظر آئیں۔
یہ ایک اچھی شروعات ہے۔



بشکریہ بی بی سی اردو