انڈیا: مہاراشٹر میں نوبیاہتا دلہنوں کے کنوارپن کے ٹیسٹ کے خلاف مہم



انڈیا
تصویر کے کاپی رائٹ
انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں ایک خانہ بدوش قبیلے سے تعلق رکھنے والے نئے شادی شدہ جوڑوں کو کنوارپن ثابت کرنے کے ٹیسٹ دینے کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اور اس میں شامل کارکنان کا عزم ہے کہ اس شرمناک عمل کو روکا جائے۔
22 سالہ انیتا* نے بتایا کہ دو سال پہلے ان کی شادی ایک نہایت تکلیف دہ عمل تھا اور وہ جب بھی اس کے بارے میں سوچتی ہیں ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
انیتا کا تعلق کنجربھاٹ نامی قبیلے سے ہے جو تقریباً دو لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے اکثریت مہاراشٹر میں ہی رہائش پذیر ہے۔ اپنی شادی کی رات انیتا کو اپنا کنوارپن ثابت کرنے کے لیے طبی ٹیسٹ دینا پڑا تھا تاکہ ثابت ہو سکے کہ وہ ’باعصمت‘ ہیں۔
اس قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے شادی کرنے سے پہلے یہ ٹیسٹ دینے لازمی ہوتا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانے کے لیے پنچایت ہوتی ہے جو اس عمل کو پورا کرنا یقینی بناتی ہے۔
اس ٹیسٹ کے لیے شادی شدہ جوڑے کو ایک سفید چادر دی جاتی ہے اور انھیں کمرے میں بھیجا جاتا ہے جہاں وہ مباشرت کرتے ہیں اور کمرے سے باہر قبیلے والے اور پنچایت والے ان کا اتنظار کرتے ہیں۔
اگر جنسی عمل کے خون نہ نکلے تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ لڑکی کنواری نہیں تھی اور اس کے نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔
ایسی صورت میں مردوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنی شادی کو ختم کردیں اور لڑکی کو سب کے سامنے شرمندہ کیا جاتا ہے اور کئی دفعہ ان کو مارا پیٹا بھی جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے خاندان کو سب کے سامنے ’شرمندہ‘ کیا ہے۔
حیران کن طور پر یہ روایت اس قبیلے کا ابھی بھی حصہ ہیں حالانکہ ماہرین یا ثابت کر چکے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ پہلی دفعہ جنسی عمل کرنے کی صورت میں عورت کے جسم سے خون نکلے۔
انڈیا
تصویر کے کاپی رائٹ کنوارپن ثابت نہ ہونے کی صورت میں شوہر شادی ختم کر سکتا ہے
دہلی میں کام کرنے والی ڈاکٹر سونیا نائک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ضروری نہیں ہے کہ پہلی دفعہ سیکس کرنے سے عورت کے جسم سے خون نکلے اور اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔
انیتا کو معلوم تھا کہ کنوارپن ثابت کرنے کا ٹیسٹ ناکام ہوگا کیونکہ ان کا شادی سے پہلے ہی اپنے ہونے والے شوہر سے جسمانی تعلقات تھے۔ لیکن انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔
میرا خیال تھا کہ میرا شوہر گاؤں والوں کے سامنے میرا دفاع کرے گا لیکن جب انھوں نے اس سے پوچھا کہ کیا میں پاک ہوں تو اس نے چادر کی طرف اشارہ کر کے مجھے جھوٹا قرار دیا۔ یہ سن کر میں سکتے میں آگئی کیونکہ ہم دونوں نے گذشتہ چھ ماہ سے جسمانی تعلقات قائم کیے ہوئے تھے وہ بھی اُس کے کہنے پر۔ اس کے بعد گاؤں والوں نے مجھے جھوٹا اور ناپاک قرار دیا اور سب نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔ میں مسلسل روتی رہی۔
انڈیا
تصویر کے کاپی رائٹ  اس ٹیسٹ کے لیے شادی شدہ جوڑے کو ایک سفید چادر دی جاتی ہے
انیتا کا شوہر اس ٹیسٹ کے بعد شادی ختم کرنا چاہتا تھا لیکن گاؤں کے سماجی کارکنان کے دباؤ کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا کیونکہ انھوں نے پولیس کو ملوث کر لیا تھا۔
اس کے بعد انیتا کے لیے معاملات اور مشکل ہو گئے کیونکہ اس کا شوہر اس تشدد کرتا تھا اور جب وہ حاملہ ہو گئی تو وہ اس سے مسلسل پوچھتا تھا کہ یہ بچہ کس کا ہے۔
دو ماہ قبل انیتا کو سسرال سے نکال دیا گیا اور وہ اپنے بچے کے ساتھ واپس اپنے والدین کے گھر پہنچ چلی گئی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ کنوارپن کے ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد سے اس کا پورا خاندان متاثر ہوا ہے اور اس کی بہنوں کی شادی میں مشکلات آرہی ہیں۔
لیکن 25 سالہ ویوک تامائچکر نے کنجربھاٹ کمیونٹی میں ایک مہم شروع کی ہے جس کا مقصد اس ٹیسٹ کو ختم کرنا ہے۔
یہ طریقہ شادی شدہ جوڑے کے نجی معاملات میں دخل اندازی ہے اور جس طرح سے یہ کیا جاتا ہے وہ بہت ہی ذلت آمیز ہے۔
انڈیا
ویوک تامائچکر اور ان کی منگیتر کنواراپن ثابت کرنے کا ٹیسٹ نہیں دیں گے
ویوک تامائچکر اور ان کی منگیتر اس سال شادی کرنے والے ہیں اور انھوں نے پونے میں موجود پنچایت کو پہلے سے ہی مطلع کر دیا ہے کہ وہ یہ ٹیسٹ نہیں دیں گے لیکن وہ ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی کے باقی نوجوان بھی ایسا ہی کریں اور خاموش نہ رہیں۔
ویوک تامائچکر نے آگاہی کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا ہے جس میں تقریباً 60 کے قریب لوگ شامل ہیں جن میں سے نصف خواتین ہیں۔
لیکن یہ مہم ان کے لیے کافی دشوار اور خطرناک بھی ثابت ہو رہی ہے کیونکہ کمیونٹی کے دوسروں لوگوں نے اس گروپ سے تعلق رکھنے والوں پر ایک شادی کے دوران حملہ بھی کیا تھا اور پنچایت نے انھیں تنبیہ کی ہے کہ معافی نہ مانگنے تک ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
لیکن ویوک تامائچکر اپنے عزم کی خاطر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حملے کے بعد ان کے گروپ کو ملنے والی تشہیر کے بعد اس ٹیسٹ کا معاملہ بڑے پیمانے پر سامنے آیا ہے اور اس پر بحث کی جا رہی اور ویوک نے امید ظاہر کی کہ یہ گفتگو اس ٹیسٹ کے عمل کو ختم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
* تحفظ دینے کے لیے انیتا کو فرضی نام دیا گیا ہے۔


بشکریہ بی بی سی اردو