سینتیس سالہ سحرش ایک کامیاب بینکر ہے، ترقی کی منازل اس نے اپنی
تعلیم ختم ہونے کے بعد کے بارہ برسوں میں تیزی سے عبور کیں یوں تو اسے کسی شے کی
کمی نہیں لیکن ایک بات کا طعنہ اسے ہمیشہ دیا جاتا ہے اور دیا جاتا رہے گا کہ اس
نے شادی کیوں نہیں کی۔ اس کے ساتھ کی لڑکیاں نہ صرف شادی شدہ ہیں بلکہ کوئی دو تو
کوئی تین بچوں کی ماں ہے۔ لیکن سحرش کو زندگی کی اس خوشی سے محرومی کا طعنہ بڑھ
چڑھ کر دیا جاتا ہے جس پر وہ کبھی کترا جاتی ہے تو کبھی مسکرا کر بات ٹال جاتی ہے۔
اتنی کامیابیوں اور نیک
نامی کے باوجو د ان دنوں سحرش کی راتوں کی نیندیں حرام ہیں، وہ نیند کی دوا لینے
کے باوجود سو نہیں سکتی۔ صبح سویرے وقت پر اٹھنا، آفس میں گھنٹوں کام کرنا، مختلف
مزاج کے لوگوں کو ڈیل کرنا، ڈیڈ لائن سے قبل ہی اپنے کام مکمل کرلینا اور فیملی
اور دوستوں کو وقت دینا اس کیاہم خوبیوں میں سے ہے۔ لیکن پچھلے کچھ ماہ سے اس کی
نیند کا اس سے اسطرح روٹھ جانا اسے بھی بے چین کیا ہوا ہے۔ گھر والوں کو اس کے
بدلتے رویے سے شکایت ہے وہ اب نپے تلے انداز میں جواب دیتی ہے۔ کوئی مہمان آ جائے
تو سوائے سلام دعا کے وہ بات آگے نہیں بڑھاتی۔ اب رفتہ رفتہ اس نے دوستوں کو بھی
نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ صرف اور صرف گہری نیند سونا چاہتی ہے وہ بھی ایسی
نیند جس میں اسے ڈراونے خواب نہ ستائیں۔ لیکن وہ اس میں ناکام ہے۔
ماہر نفسیات کے مطابق
وہ اس وقت شدید ذہنی صدمے یعنی Post Traumatic Stress Disorder (PTSD) کا شکار ہے۔ جس کے سبب اب اسے زندگی سے بیزاری اور خود سے نفرت
سی محسوس ہونے لگی ہے۔ سحرش کو یہ لگتا ہے کہ وہ ایک بیکار شے ہے اس کا وجود خالی
ہے۔ اس کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا یہاں تک کہ خو د اس کو بھی۔
سحرش اس وقت میچور ہے لیکن جس واقعے کا اثر اس کی زندگی میں یہ بھیانک تبدیلی لایا
ہے وہ اس وقت رونما ہوا جب اس کی عمر محض سات برس تھی۔ جب اسے اس کے خاندان کے ایک
قریبی رشتے نے ہراساں کیا اور پھر ڈرانے کے لئے ایک اندھیرے اسٹور روم میں تین
گھنٹے کے لئے بند کردیا کہ اگر وہ خاموشی سے بنا روئے اور چیخ و پکار کیے اس کباڑ
خانے میں گزار لے گی تو اسے جان بخشی ملے گی ورنہ اسے ہمیشہ کے لئے مار دیا جائے گا۔
اس اسٹور روم کے حوالے سے خاندان کے بچوں کو ہمیشہ بتایا گیا تھا کہ یہاں بھوت اور
کسی بدروح کا سایہ ہے۔ کاڑ کباڑ سے بھرا یہ چھوٹا سا فالتو کمرا بجلی کے کنکشن سے
محروم تھا۔ صفائی مہینوں بعد ہوجائے تو ہوجائے لیکن اس کمرے میں جہاں اس کا دروازہ
تھا خاندان کے بچے یہاں جانے سے بھی گھبراتے تھے۔ سحرش نے اپنی زندگی کو بچانے کی
شرط پر وہاں گھنٹوں سسک سسک کر گزارے اور پھر تاعمر خاموش رہنے کا تہیہ کرلیا۔
اسے اسکول میں تنگ کیا
جاتا رہا، اس کی دوست اس کی ہتک کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی، کبھی
اس کا کیا ہوا ہوم ورک کاپیوں میں سے پھاڑ دیا جاتا تو کبھی یہ جانتے ہوئے کہ اسے
مسلسل کسی کے بھی گھورنے سے خوف آتا ہے اسی چیز کا سامنا کرنا پڑتا۔ دن بہ دن وہ
ضدی اور خود سر ہوتی گئی۔ پھر اس نے خود کو ایک لڑکا تصور کرنا شروع کردیا اسے یہ
محسوس ہونے لگا کہ لڑکی ہونا ہی اس کا جرم ہے اگر وہ لڑکوں کی طرح رہے، کھیلے اور
ان کی طرح چیخ و پکار کرے تو سامنے والا اس سے خوفزدہ ہوسکتا ہے۔ یہ وہ تبدیلی تھی
جس نے اس کی زندگی کے وہ قیمتی برس جس میں لڑکیاں خود سے محبت کرتی ہیں، اپنا خیال
رکھتی ہیں، پہننا اوڑھنا سیکھتی ہیں اور ہر وقت پر کشش نظر آنے کے جتن کر رہی ہوتی
ہیں وہ اس تذبذب میں نکال دیے کہ وہ لڑکیوں جیسی نہیں۔ یہاں تک کہ کالج میں بھی
اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ نابلد تھیں اس بات سے کہ لپ اسٹک کا کون سا شیڈ
اس پر سوٹ کرے گا، آج کل کون سا فیشن ان ہے، اسے بال کیسے بنانے چائیے اسے کون سا
رنگ پہننا چائیے۔
لڑکا بننے کی کوشش کے
باوجو د اسے مختلف اوقات اور عمر میں جنسی ہراسانی کا سامنا رہا۔ جو اس کی گھٹن
میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ اس کے گھر والوں کا یہ رویہ کہ شکا یت لگانے پر اسے ہی
قصوروار سمجھا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اب یہ بات تم کسی سے نہیں کرو گی اسے
اظہار نہ کرنے کی عادت اپنانے پر مجبور کرنے لگا۔ لیکن ان تمام تر باتوں کے باوجود
وہ پڑھتی رہی آگے بڑھتی گئی۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کے تما م دکھ اس میں دفن
ہوچکے تھے لیکن یہ تمام گڑے مردے ایک ساتھ اس کے سامنے تب سامنے آئے جب اسے یہ معلوم
ہوا کہ اس کے ساتھ بارہا زیادتی کرنے والا شخص اب شیزو فرینیا کا مریض ہے اور اس
سبب اس کو سب چھوڑ چکے ہیں۔ اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ سب خدا کی جانب سے وہ سزا
ہے جو اس شخص کو دی گئی ہے لیکن وہ کس بات کی سزا پا رہی ہے جس کی مدت تمام ہونے
کو ہی نہیں آرہی۔
دوستوں کا بارہا یہ
کہنا کہ وہ شادی نہیں کرتی اکیلے کیسے زندگی گزارے گی؟ اس کے اس فیصلے سے اس کی
بوڑھی بیمار ماں کو سماج اور حلقہ احباب کے تیکھے سوالات اور طعنوں کا سامنا ہے
اسے احساس جرم اور ندامت میں دھکیلنے لگا، اس کے کچھ دوستوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ
وہ ایک کامیاب بینکار ہے اور اتنے برسوں میں اس نے اتنا کچھ کمالیا ہے اور دنیا
دیکھ لی ہے کہ اب اسے اپنا ہم پلہ کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ کی جانب سے اسے شادی
کی پیشکش بھی کی گئی تو کسی نے اس کے لئے رشتے ڈھونڈنے والوں کے رابط نمبروں کے
ڈھیر لگا دیے۔ لیکن ان سب میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کو سنے، اس کو وقت دے اور
اس سے یہ نکلوانے کی کوشش کرے کہ وہ آخر کب سے اور کس اذیت سے دوچار ہے کس بات سے
پریشان ہے؟ اس کے کیا خدشات ہیں؟
روز ایک مخصو ص وقت پر
دفتر جانا ایک ہی طرح کی درودیوار دیکھنا، ایک ہی کام کرنا اور گھر آکر یہ سننا کہ
وہ خود سر ہے، بوجھ ہے اسے اس گہری کھائی میں دھکیل رہا تھا جس کو وہ کبھی کبھی ہی
خواب میں دیکھا کرتی تھی۔ پہلے اس نے اپنے من پسند کام کرنا چھوڑے جن میں پینٹنگ
اور کھانا پکانا شامل تھا پھر اس نے لوگوں سے ملنا جلنا بات کرنا کم کیا، پھر وہ
دوست چھوڑنے شروع کیے جو اس سے ایسے تلخ سوالات تو نہیں کرتے تھے پر اسے ہر ملاقات
پر ایک جملہ ضرور کہتے تھے ”اب تم نے اپنی زندگی کے بارے میں کیا سوچا؟ “ اس جملے
نے اسے ان دوستوں سے بھی دور کردیا۔
اس نے ہر وہ دروازہ بند
کرنا شروع کیا جہاں سے اسے تھوڑی بہت سانس لینے میں آسانی تھی۔ اب سوائے اندھیرے
اور مایوسی کے کچھ بھی نہیں تھا۔ آفس کے آنے کے بعد گھنٹوں ایک ہی جگہ پر ایک ہی
انداز میں بیٹھے رہنا، موبائل یا لیپ ٹاپ پر کوئی مووی یا ڈرامہ دیکھتے ہوئے
درمیان میں ہی چھوڑ دینا، رات کے کسی پہر ماضی کے وہی پرانے برے خواب دیکھ کر نیند
سے بیدار ہونے کے بعد صبح تک بیڈ پر ٹیک لگائے بیٹھے سب پرانی باتوں کو یاد کرنا
اس کے معمول کا حصہ ہیں۔ شام گھر واپسی کے وقت اسے ائیر کنڈیشن گاڑی کے ہوتے ہوئے
ایسا محسوس ہونے لگتا کہ کہیں آگ لگی ہے اور دھوئیں کے سبب اسے سانس لینے میں
دشواری کا سامنا ہے جیسے جیسے منزل قریب ہوتی گھٹن بڑھتی جاتی یہاں تک کہ اس کا سر
بھاری ہونے لگتا اور گھر جاکر کھانے کے بجائے اسے دوا کھانے کی فکر ستانے لگتی۔
ان تمام باتوں کے ہوتے
ہوئے اس کے گھر والوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہے، گھر اسے پسند نہیں
کیونکہ اس کی دلچسپی کے سارے مواقع باہر موجود ہیں وہ باہر ٹھیک ہوتی ہے کیونکہ اس
کی الماری مہنگے برانڈڈ کپڑوں سے بھری ہوئی ہے جو دفتر جانے کے وقت کھلتی ہے اس کے
پاس لاتعداد ایسے جوتے اور سینڈلز ہیں جو گھر میں گنتی بھی نہیں کیے جاسکتے لیکن
گھر آنے کے بعد بدلے جانے والا لباس ڈیڑھ سے دو ہفتہ پہنے رکھنا، بال اگلی صبح
بنانا، ٹھنڈے فرش پر ننگے پاوں گھومنا اور اس بات پر ضد پر آجانا کہ اب وہ کہیں
باہر نہیں جائے گی کیونکہ وہ اب گھر آچکی ہے سوائے ایک ڈرامہ اور ڈھونگ کے کچھ بھی
نہیں۔ جبکہ سحرش سے جب اس کی خواہش پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ میں گہری نیند
سونا چاہتی ہوں پورا دن پوری رات یا شاید ایک دو روز تک، جہاں میں لیٹوں وہاں
ٹھنڈک ہو، پر سکون اندھیرا ہو، اس کمرے میں کوئی ایک کھڑکی بھی ہو جہاں سے باہر کا
منظر دیکھا جاسکتا ہو اور آرام دہ بستر کے سوا کمرے میں کوئی دوسرا سامان موجود نہ
ہو۔ وہ چاہتی ہے کہ اس سے کو ئی مخاطب نہ ہوا کرے، اس سے یہ سوال نہ کیا جائے کہ
اس نے اپنے بارے میں کیا سوچا؟ اس سے وہ کام نہ کروائے جائیں جو اس کی مرضی کے
خلاف ہوں ان لوگوں کے سامنے بیٹھنے اور مسکرانے پر مجبور نہ کیا جائے جن سے ملکر
اور ان کی باتیں سن کر اسے کئی کئی دن تکلیف رہتی ہے۔
سحرش پڑھی لکھی باشعور
لڑکی ہے اور بہت باہمت بھی تب ہی اس نے یہ جان لیا کہ اسے اب ماہر نفسیات کی ضرورت
ہے لیکن ان سب میں وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہے کہ اسے اذیت میں مبتلا رکھنے والے
لوگ اور گھر والے کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے اگر اسے بدلنا ہے تو وہ اپنا آپ ہے۔ یہ
سب اس نے مجھ سے شئیر کیا لیکن یہاں میں کچھ سوالات آپ سب کے سامنے رکھنا چاہتی
ہوں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کسی کی بھی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کی آزادی
ہونی چائیے؟ کیا ہم کسی بھی عورت یا مرد کی ظاہری صورت اور حالت کو دیکھ کر اس پر
تبصرہ کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ اگر کوئی لڑکی شادی نہیں کرنا چاہتی یا کسی بھی وجہ
سے وہ اس بندھن میں جڑنے کو تیار نہیں تو ہمیں اسے بار بار یہ احساس دلانے کی
ضرورت ہے کہ اس کی زندگی اس کام کے بناء ادھوری اور بے مقصد ہے؟
سحرش جس مقام پر ہے وہ
اس معاشرے میں ہر عورت کے نصیب میں نہیں ہوتا، وہ جس کرب سے گزری اس نے بہادری سے
ڈٹ کر اسے پس پشت ڈال کر اپنا مستقبل سنوارا اور خود کو کھڑا کیا۔ کیا وجہ ہے کہ
وہ زمانے کے سامنے ایک بہادر اور قابل عورت کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن گھر جاتے
ہی وہ ایسی لڑکی بن جاتی ہے جو ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ جس گھر میں وہ
رہتی ہے اس میں بسنے والوں کی ذہن سازی میں نے، آپ نے اور ہم جیسوں نے ملکر کی ہے۔
انھیں یہ جتایا اور بتایا کہ آ پ کے گھر کا ہر کونا خوبصورت ہے لیکن یہ ایک کونا
کچھ ٹیٹرھا ہے جس سے آپ کے گھر کو مثالی کا ٹائیٹل نہیں دیا جاسکتا۔ یہ باتیں ہم
نے سحرش کے گھر والوں کے دماغ میں کیلوں کی طرح ٹھونکیں۔ تب ہی انھوں نے اسے یہ
احساس دلانا شروع کیا کہ وہ نامکمل ہے، مس فٹ ہے، ایک بوجھ ہے، وہ اس قابل نہیں کہ
خود کو ان لوگوں کی فہرست میں شامل کر سکے جو نام نہاد مکمل اور مثالی زندگی گزار
رہے ہیں۔ایک لمحے کو سوچئے کہ
اگر کوئی ہمارا ” کمفرٹ زون“ اسی طرح خراب کرنے کی کوشش کرے جیسے ہم نے اس لڑکی کا
کیا تو کیا ہم میں اتنی بھی سکت ہے کہ ہم اسے سہہ پائیں؟ شاید نہیں کیونکہ ہمیں
ایک کمرے میں دنیا سے بے خبر رہنے والے ہزاروں لوگ مل سکتے ہیں جو سب کچھ چھوڑ
چھاڑ کر رشتوں اور دنیا نے بے خبر ہوئے بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ یہ گوشہ نشینی ہی
ان کا سکون ہے اور ماضی میں ہوئے برے تجربات سے فرار کا ایک موثرذریعہ بھی۔ لیکن
سحرش جیسا حوصلہ ہر کسی میں نہیں جو ماضی کی تلخیوں اور رستے زخموں کے باوجود جینے
کی خواہشمند رہی۔ اسے ہرانے والوں کی کوششیں اب بھی جاری ہیں لیکن ان سب نے اس کو
شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے پر مجبور نہیں کیا پر اتنا ضرور متاثر کیا کہ آج
وہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک وہ جو اس نے دنیا سے لڑ کر ماضی کو دھکیل کر
پایا۔ ایک وہ جو اسے بچپن میں ملنے والے دکھ کے بعد سے ہوجانا چائیے تھا۔ باہر کی
دنیا میں وہ ایک باشعور کامیاب عورت ہے لیکن گھر آتے ہی رات آٹھ بجے کے بعد سات
برس کی وہ سحرش ہے جو واپس آکر اس اندھیرے اسٹور روم میں گھٹ گھٹ کر اس شرط پر بند
ہوجاتی ہے کہ صبح کا اجالا پھوٹتے ہی اس کو رہائی ملے گی اور جینے کی ایک آس جگے
گی۔ اس سینتیس برس کی بچی کی اس قید کو اب تیس برس مکمل ہوچکے۔
بشکریہ ہم سب