مجھے پردیس میں رہتے ہوئے اٹھائیس سال ہوگئے ہیں۔ اٹھائیس برس کا
عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا۔ میں جب یہاں آرہی تھی تو کچھ جاننے والوں نے
جوخیر سے امریکہ پلٹ تھے مجھے یہاں کی زندگی کے بارے میں اپنے برے بھلے ہر قسم کے
تجربات سے آگاہ کیا۔ میں نے بھی رخت سفر باندھنے سے پہلے ایک ایک بات گرہ میں باندھی۔
حالانکہ اس میں سے آدھی باتیں ہوائی ہی تھیں۔ میں نے سوچا ہوائی جہاز کے لمبے لمبے
سفر کے اثرات یہی ہوتے ہوں گے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ
وہاں اپنی انگریزی درست کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچوں سے صرف انگریزی میں
بات کی جائے۔ ہم نے یہ بات بھی گرہ میں باندھ لی حالانکہ اس پر عمل نہیں کیا۔ ہمیں
امریکہ آنے سے پہلے ایک اور مفید مشورہ دیا گیا تھا کہ خریداری کرتے وقت خیال رہے
کہ فقط وہ چیز خریدو جو سیل پر یعنی رعایتی داموں پر لگی ہو۔ اس بات پر ہم آج تک
عمل کررہے ہیں۔ ہماری ایک ہمدرد نے ہمیں قطعیت کے ساتھ مشورہ دیا کہ وہاں سب سے
بڑا چیلنج دین کا ہے۔ ہمیں دین بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، بس۔ میں نے حیران ہوکر
پوچھا کہ ان کے تو سکے پر درج ہے کہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے طنز سے کہا
جی ہاں سکّے پر۔ انہوں نے کہا صرف اپنے لوگوں سے ملئے گا، بچوں کو صرف اپنی
کمیونٹی میں لے جائیے گا۔ بس۔ ان کے بس کہنے کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ ہم اپنے آپ
کو بالکل بے بس محسوس کرنے لگے۔ میں نے دل میں کہا آخر کسی معاشرے میں رہنے کے کچھ
آداب ہوتے ہیں۔ اگر اتنا ہی ڈر ڈر کر جینا ہے تو اپنا ملک کیا برا ہے۔ ہمیں یہ بھی
سمجھایا گیا تھا کہ کرسمس کے دنوں میں کون سے حفاظتی انتظامات کرنے ہوں گے کہ
ہمسائے بھی خوش رہیں اور ایمان پر بھی آنچ نہ آنے پائے۔
اتنی ساری مفید ہدایات
کے بعد ہم امریکہ پہنچے۔ ایک نئی زندگی کی شروعات جس طرح ہوتی ہے ہم نے بھی کی۔
یہاں ہم نے ایک دیسی پڑوسن سے پوچھا کہ سیل پر چیزیں کہاں ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا
مال چلی جائیے۔ ہم نے تو سنا تھا مال آتا ہے۔ یہاں مال جانے کی بات ہورہی تھی۔ !
ہم کچھ تعجب سے ان کی صورت دیکھنے لگے؟ خاتون سمجھ گئیں، بولیں مال میں یہاں چیزیں
اچھی اور ورائٹی بہت ہوتی ہے۔ چلیں میرے ساتھ۔ میں ان کے ساتھ ہولی۔ وہ بھی کراچی
کی رہنے والی تھیں۔ اس لئے ہمیں ان سے کچھ زیادہ ہی انس پیدا ہوگیا تھا۔ وہ ہمیں
ایک نہایت لمبے چوڑے کوئی میل بھر کے رقبے میں پھیلی ہوئی ایک عظیم الشان عمارت
میں لے کر داخل ہوئیں۔ جسے وہ مال کہہ رہی تھیں۔ یاد رہے کہ یہ اب سے ستائیس سال
پہلے کی بات ہے۔ اس وقت تک مال کا لفظ ہم نے مال و اسباب، مال برداری یا لاہور کی
مشہور سڑک مال روڈ کے حوالے سے سن رکھا تھا۔ ہم انگریزی کے ”مال ”سے اس وقت تک
قطعی ناواقف تھے۔
تو یہاں ہم نے پہلی بار
”مال ”دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے ہر خطے کا مال یہاں آکر
جمع ہوگیا ہے۔ مال اتنی تعداد میں اور اتنا ڈسکاؤنٹ کہ لوٹ کا مال معلوم ہوتا
تھا۔ ہم نے چاروں طرف ایک طائرانہ نظر ڈالی تو ہکا بکاّ رہ گئے۔ ہر طرف لال گلابی
چھوٹے بڑے ہر قسم کے دل لٹک رہے تھے۔ ناچتی ہوئی روشنیاں جو فرش پر پڑرہی تھیں وہ
بھی دل کی شکل کی تھیں۔ ہمیں اس شکل کو پہچاننے میں قطعاً دقت نہیں پیش آئی کیوں
کہ ہم اپنے ہائی اسکول کے زمانے میں اسکول کی دیوار پر کوئلے یا چاک سے اکثر ایک
دل بنا دیکھتے تھے۔ یہ دل اور تیر یونانی ادب سے ہم تک کب اور کیسے پہنچا اس کا
علم نہیں تھا لیکن ”کیوپڈ ”کے نام سے ہم واقف ہوچکے تھے۔ ان حالات میں جب ہائی
اسکولوں کی دیواروں پر دل اور تیر عشق معشوقی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ شریف
لڑکیاں اس طرف دیکھتے ہوئے بھی شرماتی تھیں۔ اور یہاں یہ عالم کہ مال میں ہر طرف
دل لٹک رہے تھے۔ میری انگلی تھامے تین برس کا بیٹا خوش ہوگیا۔ میں جلدی سے بچوں کے
کپڑوں کی دکان میں داخل ہوئی۔ وہاں دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی فراکوں پر بھی دل بنے
ہوئے ہیں۔ بچہ دل والا غبارہ لینے کو مچل گیا۔ میں نے جلدی سے دل کی شکل کا ایک
گیسی غبارہ اسے دلایا کہ گھر جاکر اسے اڑانے میں آسانی ہوگی۔
اس کے بعد ہم نے اپنا
دستور بنا لیا کہ۔ جونہی ویلنٹائن کا موسم آیا ہم نے بازار وغیرہ جانے سے احتراز
کیا۔ کہ مبادا بچے کوئی سوال کربیٹھیں کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ تو ہم انہیں کیا بتا
ئیں گے۔ ہمارے یہاں تو بچے ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے کہیں دل وغیرہ کے معاملات
سے واقف ہوتے تھے۔ اور وہ بھی چھپ چھپا کر۔ یوں کھلے بندوں دل لینے یا دل دینے کا
تصور اللہ کی پناہ۔ وہاں تو لفظ محبت اور عشق دونوں کے اظہار کی ممانعت تھی۔ ہمارے
دماغ میں بچپن سے ایک بات بیٹھی ہوئی تھی یا بٹھائی گئی تھی کہ عشق یا محبت کا
خیال تک دل میں لانا گناہ ہے۔ محبت وہ چیز ہے جو جوان ہوتے ہی لڑکے لڑکی کے دل میں
فاسد خیالات پیدا کردیتی ہے۔ سو ہم نے حتی المقدور اس شجر ممنوعہ کو بچوں کی پہنچ
سے دور رکھا۔
وقت گزرتے دیر نہیں
لگتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ اسکول جانے کے لائق ہوگیا۔ وہ اسکول سے چھوٹی چھوٹی
چیزیں بنا کر لاتا میں خوش ہوکر لے لیتی کبھی توجہ سے دیکھتی تھی اور کبھی اپنی
مصروفیات میں بغیر دیکھے ہی رکھ دیتی تھی۔ میرا بھی دھیرے دھیرے نئے معاشرے اور
نئی دنیا سے ایک رشتہ بنتا جا رہا تھا۔ اب بیٹی بھی پری کے میں داخل ہوگئی تھی۔
بیٹا جتنا خاموش طبع اور اپنے آپ میں مگن رہنے والا بچہ تھا بیٹی اتنی ہی چنچل اور
باتونی۔ وہ جو کچھ بھی اسکول سے لے کر آتی مجھے دکھاتی اور پھر اس کے بارے میں
پوری تفصیل بتاتی تھی۔ میں اگر کسی وقت توجہ نہ دے سکوں تو روٹھ جاتی تھی۔
ایک دن دونوں بچے چہکتے
ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ بچوں کے گال پر اسٹیکر سے دو ننھے ننھے دل بنے ہوئے تھے۔
میں نے چونک کر پوچھا آج کیا کیا اسکول میں۔ بیٹے نے بیگ پیک سے مڑا ہوا ایک کاغذ
نکالا جو میرے لئے اس نے بنایا تھا۔ کاغذ پر بچے کے ہاتھ کا ٹیڑھا میڑھا دل اور اس
کے بیچ میں قوس قزح کے رنگ، وہ کارڈ اس کے پورے دن کی محنت تھی۔ ان رنگ بھرے
ہاتھوں اور جگمگاتی آنکھوں پر مجھے بے اختیار پیار اآیا۔ بیٹی نے بیگ پیک کھول کر
اس میں سے دل کی شکل کا ایک کپ کیک نکالا اور اپنے ہاتھ سے میرے منہ کی طرف
بڑھایا۔ اس پل میں نے ان بھولی بھالی آنکھوں میں خوشی کی وہ چمک دیکھی جس کا کوئی
بدل نہیں ہوسکتا۔ سرشاری کے اس ایک لمحے اور پیار کے اس تہوار کو میرا سلام جس نے
مجھے محبت کے نئے معنی سکھا دیے۔
بشکریہ ہم سب