فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی سوشل
میڈیا پر قدامت پسند حضرات کی طرف سے ویلنٹائن ڈے کے خلاف پوسٹنگ دیکھنے کو ملی۔
کہیں لڑکوں کو درس دیا جا رہا تھا تو کہیں لڑکیوں کے ریپ کی کہانیاں سنائی جا رہی
تھیں۔ اکثر پوسٹوں میں تو قدامت پسند حضرات مردوں کی غیرت کو للکارتے نظر آئے کہ
جیسے تم نے دوسرے کی بہن کو پھول دیا، کیا تمہاری بہن کو بھی ویسے ہی پھول ملا ہے؟
یہ سب دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی نسبت قدامت پسند حضرات کو اس دن
کا خوب انتظار رہتا ہے۔ مجھ جیسے عام لوگ تو ہر دن کو محبت کا دن سمجھتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کب آ کر گزر جاتا ہے کچھ پتا نہیں لگتا لیکن قدامت پسند حضرات تو جیسے
پورا سال چودہ فروری کا انتظار کرتے ہیں۔ کب یہ دن آئے ،کب وہ باہر جائیں اور سڑک
کنارے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے جوڑوں کو حرامی جوڑا قرار دیں چاہے وہ معصوم نکاح
کے بعد پہلی بار اکٹھے نکلے ہوں۔
قدامت پسند کو اس دن پر یہ بھی اعتراض ہے کہ یہ انگریزوں کی تہذیب
کا حصہ ہے۔ ہم مسلمانوں کو اس دن کو اپنانے سے بچنا چاہئے۔ یہ جملہ بے شک اسی
انگریز کی ایجاد کی گئی دوائی پھانکنے کے بعد کہا گیا ہو، اس سے کوئی فرق نہیں
پڑتا۔ قدامت پسند حضرات کے مطابق ایسے دنوں کو اپنانے سے مسلمانوں کا ایمان خطرے
میں پڑ جاتا ہے لیکن ان کی ایجادات اپنانے سے ایمان اور مضبوط ہوتا ہے۔ واہ رے
قدامت پسند تیری حجت۔
یہاں مجھے پنجاب یونیورسٹی کے دور کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ہمارا ایم اے
پروگرام شام کے اوقات میں ہوا کرتا تھا۔ کلاس ختم ہونے کے بعد پوائنٹ کے انتظار
میں لڑکے اور لڑکیاں مختلف ٹولیوں کی صورت میں ادھر ادھر کھڑے گپیں ہانک رہے ہوتے
تھے۔ جیسے ہی بسیں آتی تھیں سب ایک دوسرے کو خدا حافظ کہ کر اپنے اپنے پوائنٹ کی
طرف چل پڑتے تھے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ ویلنٹائن ڈے آ گیا۔ اس شام جمعیت
کے طلبہ جانے کہاں سے نکل آئے اور ہر گروپ کے پاس جا کر لڑکوں کو ایک طرف آنے کا
کہا۔ انہوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کی الگ الگ ٹولیاں بنائی اور پوائنٹ کے آنے تک
وہیں کھڑے پہرہ دیتے رہے۔ اور ہم سب حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ آج
ایسا کیا مختلف ہو گیا ؟
جانے یہ لوگ کب سمجھیں گے کہ ویلنٹائن ڈے ہر کوئی ڈیٹ کر کے نہیں
مناتا اور نہ ہی سب جیبوں میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ لے کر گھومتے ہیں۔ ہم نے
اس محبت کے دن کو ایک مشکوک دن بنا دیا ہے۔ کوئی انسان جو اس دن باہر نظر آ جائے
اس کے کردار کو ہم فورا مشکوک سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اب چاہے کوئی کسی اہم میٹنگ کے
لئے سوٹ پہن کر نکلا ہو دیکھنے والے اسے مشکوک نطروں سے دیکھیں گے کہ ڈیٹ پر ہی جا
رہا ہوگا۔ میرے ایک بہت عزیز دوست کی سالگرہ چودہ فروری کو ہوتی تھی۔ ہر سال ہی یہ
سالگرہ میرے لئےایک پریشانی بن جاتی تھی۔ میرا سالگرہ کی نیت سے خریدا ہوا کیک
کوئی ویلنٹائن کیک نہ سمجھ لے یہ سوچ کر میں نے اس بے چارے کو نہ کبھی کیک دیا اور
نہ ہی کوئی تحفہ۔ اُس نے بھی کبھی اپنی سالگرہ گھر سے باہر منانے کی جرات نہ کی۔
اس ویلنٹائن ڈے پر اپنی سو چ کو تھوڑا بدلیں۔ اس دن کو ایک نئے رُخ
سے دیکھیں۔ ہماری مشینی زندگی میں ہمیں اتنا وقت کہاں ملتا ہے کہ ہم دو گھڑی اپنے
پیاروں کے ساتھ بیٹھ کر دو پیار بھری باتیں کر سکیں۔ ہم صبح اُٹھتے ہیں تو کام پر
جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ شام میں گھر آتے ہیں تو دِن بھر کی تھکن کسی سے بات کرنے کے
قابل نہیں چھوڑتی۔ کوئی بات بھی کرے تو باہر کا غصہ اُس پر اتار دیتے ہیں۔ ایسے
میں یہ محبت کا دن آکر سب کو ان کی محبت کا احساس دلا جاتا ہے تو اس میں برائی ہی
کیا ہے؟
یہ زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے جو کہ ایک بار ہی ملتی ہے۔ اس سے بھر پور لطف
اٹھائیں۔ یہ نہ ہو کہ موت کا فرشتہ آ جائے اور آپ اس سوچ میں پڑ جائیں کہ اوہ میں
تو جینا ہی بھول گیا۔اس ویلنٹائن ڈے پر اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ پَل نکالیں
اور اپنے پیاروں کے ساتھ مِل کر بیٹھیں۔ اپنے ماں باپ سے محبت کا اظہار کریں۔ اپنی
بیوی کو بتائیں کہ آپ اُس کے ساتھ کتنے خوش ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ جب
آپ اپنے بچوں کو محبت دیں گے تو انہیں کسی اور کی محبت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب
آپ انہیں کوئی چھوٹا سا تحفہ لا کر دیں گے تو وہ کسی اور کے تحائف کا انتظار نہیں
کریں گے۔ جب آپ انہیں سرپرائز ڈنر پر باہر لے کر جائیں گے تو وہ کسی اور کی سرپرائز
ڈیٹ کا انتظار نہیں کریں گے۔ جب آپ بیٹھ کر اُن کے مسائل سنیں گے تو وہ سوشل میڈیا
پر کسی انجان کو اپنے مسائل نہیں سنائیں گے۔ اِن چھوٹی چھوٹی چیزوں پر عمل کر کے
آپ زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔
نوٹ: ان مشوروں پر قدامت پسند حضرات بھی عمل کر سکتے ہیں۔