ہمیں محبت کی ضرورت نہیں


عبدالرحمان وڑائچ

ویلنٹائن ڈے کی آمد آمد ہے، ملک میں حیا کی احیا کے لئے حیا ڈے کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔ فیس بک پر مغربی تہوار کے خلاف لڑ مرنے کی دعوت عام دی جا رہی ہے۔ یہ واقعتاً اک مغربی تہوار ہے اس کا ہماری تاریخ سے کوئی تعلق نہیں، کیوںکہ شیریں فرہاد، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال، ہیر رانجھا یہ سب یورپ، امریکا اور افریقہ کے رہنے والے تھے۔ ٹرکوں اور رکشوں پر رومانوی اشعار ہمارے ہاں نہیں بلکہ آسٹریلیا میں لکھے ہوتے ہیں
ہم محبت کے اظہار میں گونگے اور نفرت کے اظہار میں منہ پھٹ لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں پھول صرف قبروں، درباروں اور جنازوں لئے مختص ہیں۔ ہم محبت کی شادی کرنے والوں کو زمین میں گاڑ کر غیرت زندہ باد کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں۔ ہمیں صحن میں تار پر بیٹھا چڑیوں کا جوڑا بھی فحاشی کا ارتکاب کرتا نظر آتا ہے۔ ہمارے چوراہوں اور چوکوں پر ٹینک، توپیں محتصر یہ کہ تباہی اور نفرت کے نشان نصب ہیں۔
ہمیں محبت سے ڈر لگتا ہے، ہمیں محبت سے نفرت ہے۔ ہم سارا سال صحت کا، موسم کا، بچوں اور بوڑھوں کا عالمی دن مناتے ہیں۔ مگر ہمیں ان دنوں کی تاریح سےنہ تو کوئی دلچسپی ہوتی نہ ہی کوئی اعتراض! مگر ویلنٹائن ڈے کے مقابل ہمیں حیا ڈے منانا پڑتا ہے۔
یہ دعویٰ بھی ہے کہ گورے نے محبت کو اک دن تک محدود کر کے بڑا ظلم کیا ہے۔ یہ جذبہ محدود کیا ہی نہیں جا سکتا، ویلنٹائن ڈے رکھ کر محبت کو محدود نہیں اس کے لئے وقت کو خاص کیا گیا ہے۔ خدا کو ہر لمحہ ہر گھڑی یاد رکھنا مومن لئے لازم ہے اسے کسی صورت بھولا نہیں جا سکتا مگر ہم نماز کی صورت اپنی مصروفیت کو نذر انداز کر کے اس کی یاد کو خاص کرتے ہیں۔
اس سماج کو محبت(لڑکا/لڑکی) کی ضرورت ہی نہیں، یہاں اس کی وکالت کرنا پاگل پن ہے۔ ہمارے ہاں رشتے کرتے وقت دولت، مکان اور خاندان دیکھے جاتے ہیں ۔ محبت ان معاشروں کی ضرورت ہے جہاں آزادی اور مرضی کا پیمانہ موجود ہے، وہاں جوڑوں میں پہلے محبت ہوتی ہے، بعد میں جنسی تعلق بنتا ہے۔ ہمارا معاشرہ نسبتاً پاکیزہ ہے۔ یہاں میاں بیوی میں جنسی تعلق پہلے بنتا ہے محبت بعد میں ہوتی ہے، پتا نہیں یہ محبت ہوتی ہے یا بچوں کی مجبوری!
یہ ان معاشروں کی ضرورت ہے جہاں لڑکا لڑکی جنہوں نے مستقبل میں جوڑا بننا ہوتا ہے خود اک دوسرے کا انتحاب کرتے ہیں، ملتے ملاتے ہیں، اک دوسرے کو سمجھتے ہیں، محبت کرتے ہیں اور پھر کہیں جا کر اک ساتھ زندگی گزارنےکا فیصلہ کرتے ہیں۔ نہ کہ ان معاشروں کی جہاں فیصلے قریب المرگ بزرگ، اور چاچا بابا کرتے ہیں ۔ جہاں دلہن دولہا اک دوسرے کو شادی کی رات ہی دیکھ کر منہ دکھائی دیتے ہیں۔
یہاں اپ کی بہن کو اگر کوئی پھول دے دے تو اپ کیا کریں گے جیسے سوال اٹھائے جاتے ہیں؟ یہ سوال اک سماجی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس بات سے عورت کا اک آزاد انسانی وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اور وہ صرف شوہر یا باپ کی ملکیت اور بھائی کی غیرت ظاہر ہوتی ہے۔
بھئی پھول دینے پر اپ کچھ کرنے کے مجاز نہیں، اس عورت کا اپنا بھی اک آزاد وجود ہے۔ اپ بطور بھائی اس کے وجود کے مالک نہیں کچھ کرنے کا اختیار صرف اس انسان(عورت) کا ہے جسے پھول پیش کیا جا رہا ہے، وہ اسے قبول بھی کر سکتی ہے اور نظر انداز بھی، بشرطیکہ اپ نے اسے اپنا اچھا برا سمجھنے اور کرنے کا اختیار دیا ہو۔
مذہب کی تشریح کرنے والے اک طرف تو مرضی کی شادی کے حق کی بات کرتے ہیں، اور دوسری طرف میل ملاپ کی بہت سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، میل ملاپ پر پابندی اور مرضی کا اختیار! اس تناظر میں ’مرضی‘ ایک مبہم اصطلاح بن جاتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کی بدولت تہوار اب کسی ملک کی میراث نہیں رہے، سالگرہ بھی کبھی مغربی تہوار ہوا کرتا تھا۔ اب یہ عالمگیر ہو چکا ہے۔ ریاستی پابندیوں سے نوجوان سماجی منافق بن جاتے ہیں۔ ثقافتی گھٹن پہلے ہی عروج پر ہے۔ بسنت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ کھیل کے ٹوٹے پھوٹے میدان دہشت گردی نے اجاڑ دیے ہیں۔ اگر اپ اس تہوار کی حقیقی قباحتوں سے خوف کھا رہے ہیں تو اس کی شکل تھوڑی بدل دی جئے، اس تہوار کو دوستوں ساتھ محبت کے نام کر دیجئے، اک دوسرے کو محبت کے پیغام بھجئے، میاں بیوی اک دوسرے کو ویلنٹائن کے دن پر تحفے دے۔ پابندیاں نوجوانوں کو ثقافتی لحاظ سے گھٹن زدہ اور انتہا پسند بنانے کے سوا کچھ نہیں کریں گی۔

بشکریہ ہم سب