صرف اپنا ظرف اتنا بڑا کر لیجیے
کہ اگر ایک عورت اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کا ذکر کر رہی ہے تو اسے بولنے
دیں
میشا
شفیع کو مبینہ طور پہ علی ظفر نے ہراساں کیا، ان کی ٹویٹ کے بعد چار مزید خواتین
نے اس بات کا اظہار کیا کہ علی ظفر نے انھیں بھی ہراساں کیا۔ کچھ بزرج مہر اسے علی
ظفر کی آ نے والی فلموں کے لیے مشہوری کا ایک حربہ اور ملی بھگت بتا رہے ہیں، کچھ
کے نزدیک یہ دو فنکاروں کے درمیان معاوضے کی جنگ ہے۔
سچ اور جھوٹ کا فیصلہ
ان معاملات میں اکثر نہیں ہو پاتا لیکن ایسے واقعات معاشرے کی قلعی خوب کھولتے
ہیں۔ خیر پاکستانی معاشرے میں عورت کے بارے میں سطحی گفتگو کرنے کی آزادی تو ہمیشہ
ہی سے ہے۔ میشا کے اس ٹویٹ نے پنڈورے کا کوئی نیا پٹارا نہیں کھولا۔ وہی پرانے گٹر
دوبارہ ابل پڑے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے چھلکے کہ اپنا سارا ہی گند
عیاں کر گئے۔
میشا کے چہرے سے لے کر
جسمانی خدوخال تک کے بارے میں ایسے گفتگو کی گئی جیسے قصاب بکری کا گوشت ٹٹولتا
ہے۔ اسی پہ بس نہیں ہوا تو بہت سے لوگوں کو یہ تکلیف اٹھی کہ مختصر ترین لباس
پہننے والی خاتون جو گانے وانے بھی گاتی ہے اور گاتے ہوئے تھرکتی بھی ہے اور علی
ظفر کے 'بہت' قریب ہو کر تصاویر بھی بنواتی رہی ہے اسے کسی قسم کی بھی حرکت سے
ہراساں کیسے کیا جا سکتا ہے ؟
’ہراسانی‘ کیا ہے اس پہ
بہت بار بات ہو چکی ہے۔ کچھ حضرات نے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں بہت خوش ہوتے
ہوئے یہ بھی بتایا کہ انھیں بھی ان سے بڑی عمر کی خواتین نو عمری میں ہراساں کرتی
رہی ہیں۔ یقیناً ان کے ساتھ ایسا ہوا ہو گا اور ایسا ہوتا ہو گا لیکن کیا انھیں
نظر انداز کر دیے جانے کی حد تک کم واقعات کے باعث یہ مان لیا جائے کہ خواتین کو
ہراساں نہیں کیا جاتا؟ اور اگر کیا بھی جاتا ہے تو اس کے لیے ایک خاص وضع قطع،
عمر، شکل اور سماجی حیثیت کی عورت ہی شکار بن سکتی ہے؟
بالکل نہیں ’می ٹو‘ کی
تحریک کا مقصد ہی یہ بتانا ہے کہ ہر ماحول، ہر طبقے اور ہر میدان کی عورت کو
ہراساں کیا جا رہا ہے۔ میں ایک استاد ہوں، میرے طالب علم نہایت تمیز دار بچے ہیں،
لیکن سالہا سال کے اس تجربے میں ایک دو طلبہ ایسے بھی ہیں جن کو تعلیم کے ساتھ
تہذیب بھی مجھے ہی سکھانی پڑی، ان کا رویہ ان کی ساتھی طالبات کے ساتھ ایسا تھا
جسے ہراسانی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
میشا شفیع کے ٹویٹ سے جو بحث شروع ہوئی تھی وہ
جلدی ختم ہوتی نظر نہیں آرہی
میں ایک ادیب ہوں، میرے
ساتھ کے مرد ادیب بہت مہذب ہیں لیکن یہاں بھی سالہا سال کے تجربے میں کچھ احباب
ایسے ہیں جن کا رویہ کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ ان کی کھینچی ہوئی حد سے آ گے تھا۔
ان افراد میں بہت بڑے نام شامل ہیں۔ میرا تعلق فنونِ لطیفہ سے براہِ راست تو نہیں
لیکن فلم اور ٹیلی ویژن کے لیے لکھنے کی وجہ سے یہاں بھی بہت سے ایسے لوگوں کی
کہانیاں سینہ گزٹ کے ذریعے معلوم ہیں جن کو اپنے ساتھ کام کرنے والے ٹیلنٹ کی عزت
کرنا کسی نے نہیں سکھایا۔
میں ایک صحافی بھی ہوں
اور اس پیشے میں خواتین کی کتنی عزت کی جاتی ہے اس سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ ایک
قومی اخبار کے دفتر میں انٹرن شپ کے پہلے روز داخل ہونے والی میری ایک قدرے فربہہ
سہیلی نے پہلا جملہ یہ سنا تھا 'یہ پنجاب یونیورسٹی والے اپنی لڑکیوں کو کون چکی کا
پیسہ کھلاتے ہیں؟'
کہنے والا ایک بہت بڑا
نام ہے۔ اس روز اس لڑکی کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ہی درحقیقت کیرئیر کی ابتدا ہے۔
ان جملوں کی نہ کوئی پکڑ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ریکارڈ، گندی نظر ناپنے کا نہ
کوئی آلہ ایجاد ہوا ہے اور نہ بد نیتی کسی سکینر کی زد میں آ سکتی ہے، اس لیے
ہراسانی کا کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔
مرد عورت کو کیوں
ہراساں کرتا ہے؟ اور کیا اس جرم کے لیے کسی عورت کا حسین، پردے دار، کم سن اور
شرمیلا ہونا ضروری ہے؟ کیا خواتین کو پریشان کرنے کے لیے کسی قسم کی حسِ لطیف یا
جمالیات کا کوئی ذوق چاہیے؟ جی نہیں، ذرا آنکھیں کھولیے اور اپنے چاروں طرف
دیکھیے، سگنل پہ بھیک مانگتی ایک میلی، جوئیں پڑی فقیرنی کو بھی آتے جاتے راہ گیر،
چٹکی لینے، سہلانے یا گندی نظر ڈالنے سے باز نہیں رہتے۔ حد یہ ہے کہ کئی حال مست
فقیرنیاں جو قابلِ رحم حال میں سڑکوں کے کنارے پائی جاتی ہیں، جنسی استحصال کا
شکار ہوتی ہیں۔
اس رویے کے طویل تجربات
سے کشید کردہ ایک بہت ہی مردانہ وار جملہ، جو ہمارے مرد اکثر استعمال کرتے ہیں
کہ’بس نبض چلنی چاہیے۔‘ حالانکہ اصل صورت حال تو اس سے بھی بد تر ہے۔ یہاں تو
قبروں سے عورتوں کی لاشیں نکال کر ان کی بے حرمتی کرنے کے واقعات بھی ریکارڈ پہ
موجود ہیں اس معاشرے میں عورت سے مزید کیا اور کس بات کا ثبوت مانگا جا رہا ہے؟
سچ جھوٹ کا فیصلہ ہم
نہیں کر رہے، صرف اپنا ظرف اتنا بڑا کر لیجیے کہ اگر ایک عورت اپنے ساتھ ہونے والی
کسی زیادتی کا ذکر کر رہی ہے تو اسے بولنے دیں، اس ایک آواز میں جانے کتنی پسی
ہوئی مظلوم خواتین کی آوازیں شامل ہیں۔ وہ جو ابھی تک نہیں بول سکیں اس ایک چیخ
میں ان کی پکار بھی شامل ہے، خدارا اس پکار کا گلا نہ گھونٹیں بلکہ اس آواز میں
اپنی آواز ملائیں خود کو تبدیل کریں، اپنی غلطی کا عتراف کرنا سیکھیں، معافی مانگنا
سیکھیں۔ مرد ہونا اعزاز نہیں اور عورت ہونا کوئی گالی نہیں، انسان ہونا بڑی بات
ہے، انسان بنیں، مرد نہ بنیں !
بشکریہ بی بی سی اردو