'ترکی میں کرسمس کیسے منائی جاتی ہے؟'
میں 21 سال پہلے
برطانیہ آیا تھا لیکن ہر سال مجھ سے کرسمس کے موقعے پر یہی سوال پوچھا جاتا ہے۔
میں جواب میں کہتا ہوں
کہ ترکی مسلمان اکثریتی ملک ہے اس لیے 25 دسمبر اس کے کیلنڈر میں باقی دنوں کی طرح
ایک عام دن ہے۔
نو کرسمس
یہ بات صرف ترکی ہی پر
صادق نہیں آتی، دنیا کی اکثریت کرسمس سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ یہ بات مغرب میں
رہنے والوں کے لیے حیرت انگیز ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کرسمس کوئی بین
الاقوامی تہوار ہے۔
قرآن میں کئی جگہ حضرت عیسیٰ کا ذکر ہے
لیکن کرسمس حضرت عیسیٰ
کی پیدائش کا تہوار ہے جنھیں صرف مسیحی مانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ
مسلمانوں، ہندوؤں، یہودیوں، بودھوں یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو اس سے
کوئی سروکار نہیں ہے۔
اسلام حضرت عیسیٰ کو
پیغمبر ضرور مانتا ہے لیکن ان کی پیدائش کا جشن نہیں مناتا۔ قرآن میں حضرت عیسیٰ
کو سب سے جلیل القدر انسانوں میں ایک قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ حیرت انگیز طور پر
قرآن میں حضرت عیسیٰ کا نام حضرت محمد کے نام سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن میں
صرف ایک خاتون کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ اور وہ ہیں حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت
مریم۔
یہی نہیں بلکہ ان کے
نام پر ایک سورہ کا نام بھی رکھا گیا ہے۔
قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ اور حضرت
مریم کا ذکر انتہائی احترام سے کیا گیا ہے
قرآن میں لکھا ہے کہ
حضرت مریم کنواری تھیں اس لیے جب ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو لوگوں نے ان پر
انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں۔ لیکن اس موقعے پر نوزائیدہ بچہ یعنی حضرت عیسیٰ بول
پڑے اور کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔
مسلمانوں سے توقع کی
جاتی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ کا ذکر آئے تو وہ علیہ السلام ضرور کہیں، جس کا مطلب ہے
ان پر سلامتی ہو۔
اس کے علاوہ اسلامی
عقیدے کے مطابق قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ہی دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ یہی
وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کا ذکر اسلامی ثقافت کا لازمی جزو ہے۔
مشہور صوفی فلسفی امام
غزالی نے انھیں 'روح کا پیغمبر' قرار دیا ہے، جب کہ ابن عربی انھیں 'صوفیا کا
خاتم' کہتے ہیں۔
دنیا بھر میں مسلمان
لڑکوں کا نام عیسیٰ اور لڑکیوں کا نام مریم رکھا جاتا ہے۔
لیکن کیا کوئی تصور کر
سکتا ہے کہ کوئی مسیحی اپنے بچے کا نام محمد رکھے؟
مسلمان ابتدا ہی سے
حضرت عیسیٰ سے مانوس تھے کیوں کہ ساتویں صدی کے شروع میں جب اسلام کا آغاز ہوا تو
عیسائیت نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں پھیل چکی تھی بلکہ خود صحرائے عرب میں بھی جگہ جگہ
مسیحی بستیاں قائم تھیں۔
مسلمان تو حضرتِ عیسیٰ
کو برگزیدہ نبی سمجھتے ہیں، لیکن دوسری طرف مسیحی چرچ اس کا جواب کچھ اور طریقے سے
دیتا ہے اور وہاں صدیوں سے حضرت محمد سے نفرت کا واضح اظہار ملتا ہے۔ اس کی مثالیں
ان کے آرٹ میں بھی نظر آتی ہیں۔
بین المذاہب مکالمہ
2002 میں اسلامی شدت پسندوں
نے بولونیا کے ایک چرچ کی دیوار پر بنی فریسکو پینٹنگ کو دھماکے سے تباہ کرنے کا
منصوبہ بنایا جہاں حضرت محمد کی شبیہ دکھائی گئی ہے۔ اس کے بعد سے یورپ کے مختلف
شہروں میں اسلام کے نام پر حملے کیے گئے ہیں جن سے ان دونوں مذاہب کے درمیان خلیج
مزید گہری ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسیحی
برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی حضرتِ عیسیٰ کے بارے میں جانے۔
دونوں مذاہب کے درمیان
موجود فرق کی بجائے اگر اشتراکات پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ خلیج پاٹی جا سکتی
ہے۔