بیمار کا ہاتھ تھامنے سے درد کم ہوجاتا ہے، تحقیق


امریکی ماہرین کی جانب سے ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ بیماری یا تکلیف میں اپنے کسی پیارے کا ہاتھ تھامتے ہیں تو اس سے نہ صرف سانس اور دل کی دھڑکن بھی ایک جیسی ہوجاتی ہے بلکہ دونوں کی دماغی سرگرمیوں کی لہریں بھی ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ ماہرین نے اس حیرت انگیز بات کا انکشاف آن لائن تحقیقی جریدے ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ (پی این اے ایس) میں شائع شدہ رپورٹ میں کیا ہے۔یہ مطالعہ یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر اور یونیورسٹی آف ہائیفا کے ماہرین نے مل کر انجام دیا ہے۔ اس میں دیکھا گیا کہ صرف ہاتھ تھامنے کے عمل سے بھی دوسرے کے درد میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ دونوں کی دماغی امواج تک ایک ہی طرز پر کام کرنے لگتی ہیں۔ ذہنی امواج کی یکسانیت سے تکلیف کم ہوتی جاتی ہے۔اس مطالعے کے مرکزی مصنف پیول گولڈسٹائن کہتے ہیں کہ لوگ مریضوں سے بات چیت تو کرتے رہتے ہیں لیکن جسمانی طور پر انہیں لمس اور چھونے کا احساس فراہم نہیں کرتے اور ہم انسانوں پر اس کا مثبت اثر ہوتا ہے۔ اس لیے ہماری تحقیق درد میں مبتلا دوسرے شخص کےلیے چھونے کے احساس کی اہمیت بیان کرتی ہے۔اس عمل میں ایک دماغ دوسرے دماغ سے ہم آہنگ ہوتا ہے جسے ’باہمی یکسانیت‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً درد کے وقت اگر شوہر بیوی کا ہاتھ تھامے تو اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر خاتون بچے کو جنم دے تو اس دوران مرد کا ہاتھ تھامنے سے بھی درد زہ بہت کم ہوسکتا ہے۔ماہرین نے 23 سے 32 سال کے جوڑوں پر اس کے تجربات کیے جو ایک سال تک جاری رہے۔ اس میں مرد اور عورت کو معمولی تکلیف دی گئی اور شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے ہاتھ تھامنے کا کہا گیا۔ اس دوران دیکھا گیا کہ ہاتھ تھامنے کے بعد ہی دونوں کے دماغ میں ’’الفا میو‘‘ (Alpha Mu) کہلانے والی خاص سرگرمی ہم آہنگ ہوتی چلی گئی اور درد محسوس کرنے والے کو اس کا کم احساس ہوا۔ اسی طرح مرد اور عورتوں کو باری باری معمولی تکلیف سے گزارا گیا اور ان کے ہاتھ تھامنے اور نہ تھامنے کے دوران دماغی سرگرمیوں کو نوٹ کیا گیا۔اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ تکلیف کے موقع پر اگر آپ اپنے عزیز کا ہاتھ تھامتے ہیں تو اس سے درد کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ماہرین نے اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا ہے کہ ہاتھ تھامنے سے مریض پر مزید حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں جن پر اگلے مرحلے میں تحقیق کی جائے گی۔