سینتالیس برس قبل جب مشرقی پاکستان بنگلا دیش بنا تو اس وقت اس کی تصویر ایک برباد و بے خانماں غربت کے مثالیے کے طور پر دکھائی جاتی تھی۔ آزادی کے بعد کے پہلے عشرے میں ملکی معیشت کا دار و مدار بھارتی صنعت کاروں یا بین الاقوامی خیرات پر تھا۔ کوئی شے دساور کو جاتی تھی تو ریکروٹنگ ایجنٹوں اور انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھنے والے بے روزگار بنگلا دیشی یا خام پٹ سن۔
سیاست کا بھی یہی عالم تھا۔ شیخ مجیب الرحمان عوامی لیگ کی یک جماعتی آمریت کے قیام کی شدید خونی خواہش کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نئے ملک کی نئی نئی فوج میں گروہ بندی ہو گئی اور تختے پر تختہ الٹنا رواج سا ہو گیا۔ میجر جنرل ضیا الرحمان، پھر جنرل حسین محمد ارشاد، پھر خالدہ ضیا کی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی، کرپشن، اقربا پروری، حزبِ اختلاف کو رگیدنے کا سلسلہ، انتقامی سیاست، غرض ایک بندر تماشا چلتا رہا۔
پھر جانے کیا ہوا کہ بنگلا دیشیوں کے قومی رویے میں ایک تبدیلی آنی شروع ہو گئی اور دو ہزار چھے کے بعد سے گارمنٹ سیکٹر میں بین الاقوامی سرمایہ کاری شروع ہوئی تو معاشی بڑھوتری نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بند کر دیا۔ زچہ و بچہ کی صحت پر خصوصی توجہ دی گئی، آبادی میں بے تحاشا اضافے کو روکنے کے لیے تولیدی طریقوں تک عام رسائی کو ریاست نے اپنا مقصد بنا لیا۔
ہر سال آنے والے سیلابوں کو لگام دینے کے لیے ڈائکس اور بند باندھنے کا سلسلہ سنجیدگی سے شروع ہوا۔ سن ستر کے سائیکلون میں سوا لاکھ اموات کے بعد اتنی بڑی تعداد میں پھر کبھی اموات نہیں ہوئیں۔ جان بچانے والی ادویات کو سستا اور وافر کرنے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پابند کیا گیا کہ وہ جنرک نام سے ادویات تیار کریں۔ اس بابت مقامی دوا سازوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یوں نوزائیدگی اور پیٹ کی بیماریوں کے سبب شرح ِ اموات کو خاصا نیچے لایا گیا۔
دیہی خواتین کی معاشی خود مختاری کے لیے محمد یونس کے گرامین بنک نے چھوٹے قرضوں کا انقلابی سلسلہ شروع کیا۔ بنگلا دیش نے بھارت کی جانب کلی جھکاؤ کی اپنی پالیسی کو رفتہ رفتہ بدلنا شروع کیا اور چینی و جاپانی سرمایہ کاری کو بھی مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے معیشت کو کھولا گیا۔ ڈھائی ملین بنگلا دیشی تارکینِ وطن کو راغب کیا گیا کہ وہ ہنڈی کے بجائے پیسے بھیجنے کے لیے بنکنگ سیکٹر کا استعمال کریں۔ ان بنیادی اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن اور اقربا پروری کے باوجود معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے لگی۔
آج صورت یہ ہے کہ آزادی کے وقت معیشت میں صنعتی سیکٹر کا حصہ سات فی صد تھا جو اب بڑھ کر تیس فی صد تک جا پہنچا ہے۔ سن ستر میں سائیکلون سے مرنے والوں کی لاشوں کے لیے کفن کم پڑ گیا تھا مگر آج بنگلا دیش کی تراسی فی صد ایکسپورٹ گارمنٹ انڈسٹری کی مرہونِ منت ہے۔ چھتیس ارب ڈالر سالانہ کمانے والی ایکسپورٹ بھارت اور پاکستان کی مجموعی گارمنٹ ایکسپورٹ سے زیادہ ہے۔ امریکا اور جرمنی بنگلا دیشی گارمنٹس کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔
دو ہزار چھے کے بعد سے قومی پیداوار میں سالانہ شرحِ نمو کی اوسط چھے فی صد سے کم نہیں ہوئی اور پچھلے چار برس سے اوسطِ شرحِ نمو سات فی صد سے اوپر ہے۔ یہ شرح تسلسل کے اعتبار سے پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ بنگلا دیشی تارکینِ وطن سالانہ پندرہ ارب ڈالر زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر گارمنٹ انڈسٹری اور تارکینِ وطن کے زر مبادلہ کو جمع کر لیا جائے تو بنگلا دیش کے پاس غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اکیاون ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بنک اور ایچ ایس بی سی کے اندازوں کے مطابق اگر شرح ِ نمو دو ہزار تیس تک سات فی صد سالانہ رہی تو اگلے دس برس میں بنگلا دیش کی تین سو ارب ڈالر کی معیشت سات سو ارب ڈالر کے حجم تک پہنچ کر دنیا کی تیس بڑی معیشتوں میں شامل ہو سکتی ہے۔
انیس سو ستر میں مشرقی پاکستان کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ اور مغربی پاکستان کی ساڑھے چار کروڑ تھی۔ آج اڑتالیس برس بعد شرح پیدائش میں کنٹرول کے سبب بنگلا دیش کی آبادی ساڑھے پندرہ کروڑ ہے اور پاکستان کی آبادی اکیس کروڑ سے اوپر نکل گئی ہے۔جہاں تک اوسط عمر کا معاملہ ہے تو اس وقت پاکستان میں اوسط عمر چھیاسٹھ برس، بھارت میں اڑسٹھ برس اور بنگلا دیش میں بہتر برس ہے۔ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ساڑھے پندرہ سو ڈالر اور بنگلا دیش کی ساڑھے سترہ سو ڈالر ہے۔
بھوکا بنگال ایک تاریخی طعنہ بن چکا تھا۔ مشرقی پاکستان کو ایسا بوجھ کہا جاتا تھا جس کو زندہ رکھنے کی ذمے داری مغربی پاکستان کی ہے۔ انیس سو بانوے کے گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق بنگلا دیش کی چون فی صد آبادی کے سروں پر بھوک منڈلا رہی تھی۔ آج صورت یہ ہے کہ صرف ساڑھے چھبیس فی صد بنگلا دیشی بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس وقت بھارت کی بتیس اور پاکستان کی تینتیس فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
جہاں تک غیر ملکی سرمایہ کاری کا معاملہ ہے تو بنگلا دیش اپنے تمام انڈے ایک اقتصادی ٹوکری میں رکھنے کے مرحلے سے آگے نکل گیا ہے۔ چین اگلے گیارہ برس کے دوران بنگلا دیش کے صنعتی، زرعی و مواصلاتی سیکٹر میں تیس ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کی خواہش رکھتا ہے اور بنگلا دیش کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ کے عظیم منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ بھارت نے اپنی شمال مشرقی ریاستوں اور باقی بھارت کے درمیان مواصلاتی راہ داری کو جدید بنانے کے لیے گزشتہ ایک عشرے میں بنگلا دیش کے انفرااسٹرکچر منصوبوں میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور مزید سرمایہ کاری راستے میں ہے۔ جاپان چٹا گانگ کے متبادل کے طور پر ڈیپ سی پورٹ بنا رہا ہے۔ چین بھی اس ٹھیکے کا خواہش مند تھا مگر بنگلا دیش نے یہاں جاپانیوں کو ترجیح دی۔ جب کہ چین کو دریائے گنگا پر ڈھاکا کو باقی ملک سے ہر موسم میں جوڑنے کے لیے ایک دس کلو میٹر طویل پل کی تعمیر کا ٹھیکا دے دیا گیا۔ یہ منصوبہ اس سال مکمل ہو جائے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بنگلا دیش پچھلے دس برس میں ایک با اعتماد معاشی حکمتِ عملی اپنانے اور اس پر عمل در آمد میں کام یاب ہو چکا ہے۔
شیخ حسینہ کی عوامی لیگ چوں کہ دو ہزار آٹھ سے مسلسل حکمرانی کر رہی ہے لہذا بنگلا دیش کی مسلسل معاشی اٹھان کا کریڈٹ بھی اسی کے کھاتے میں جاتا ہے۔ مگر اس معاشی ترقی نے جمہوریت اور رواداری کو بڑھاوا دینے کے بجائے مزید سکیڑ دیا ہے۔ آج بنگلا دیش کے اقتصادی اعشاریے جتنے اوپر جا رہے ہیں شہری و جمہوری حقوق کے اعشاریے اتنے ہی نیچے کی طرف ہیں۔ معیشت میں صحت مند مسابقت صحت مند جمہوری مسابقت میں نہیں بدل سکی۔
اس سخت گیری کے پیچھے غالباً یہ فلسفہ ہے کہ جنوبی کوریا، تائیوان، ویتنام، ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور سب سے بڑھ کر چین نے معاشی چھلانگ ایک آمرانہ استحکام کے پل سے لگائی اور اس کے نتیجے میں یہ معیشتیں ایشین ٹائیگرز بن گئیں۔ بنگلا دیش نے آزادی کے بعد ابتدائی تیس برس سیاسی عدم استحکام میں گنوا دیے، لیکن جب سے عوامی لیگ نے ریاستی اداروں پر کنٹرول حاصل کیا ہے بنگلا دیش، برما کی طرح بند آمریت بننے کے بجائے آمرانہ انداز کی ایک کھلی ترقی پذیر معیشت بن چکا ہے۔
اس سوچ میں بس ایک خطرہ ہے۔ جب لاوا پھٹتا ہے تو سارے اقتصادی ثمرات بہا کر لے جاتا ہے۔ عوامی لیگ نے دو ہزار چودہ کے انتخابات جس یک طرفہ انداز میں جیتے۔ ملک کو مذہبی شدت پسندی کی جانب روکنے کے نام پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر جس نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئیں اور اس بہانے غیر شدت پسند حزبِ اختلاف سے جو سلوک روا رکھا گیا، عدلیہ اور پولیس کو جس طرح سیاسی دلدل میں لت پت کیا گیا اور گزشتہ ہفتے عوامی لیگ نے جس کھلم کھلا زور آوری اور ریاستی مشینری کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے تین سو میں سے دو سو اٹھاسی پارلیمانی نشستیں جیتنے کا دعویٰ کیا۔ وقتی طور پر تو یہ سب چل جائے گا مگر سیاسی دراڑ کب بلیک ہول بن کر سب کام یابیاں نگل لے۔ یہ تبھی پتا چلتا ہے جب سب چوپٹ ہو چکا ہوتا ہے۔
بنگلا دیش میں آج بھی اسی فی صد سرمایہ کاری ملکی نہیں غیر ملکی ہے۔ بے امنی کا ایک بڑا جھٹکا غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ہاتھ کھینچنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مگر چکا چوند کے ماحول میں ذرا فاصلے پر کھڑی رات کا خیال کہاں آتا ہے۔ جب تک چل رہا ہے تب تک چل رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ اب تک تو خوب چل رہا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)