یہودی کا داماد

 
ہماری یادداشت تھوڑی سی کمزور ہو گئی ہے اس لئے صحیح سے یاد نہیں آتا کہ ”یہودی کی بیٹی“ کس نے لکھا تھا، وہ امتیاز علی تاج کی تحریر تھی یا کسی اور کی۔ مگر ہم نے اس پر بننے والی بلیک اینڈ وائٹ بھارتی فلم ضرور دیکھی ہے کہ جس میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار جی ہیرو ہیں۔ یہ فلم بڑے کمال کی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ ہند کے ماحول میں رہنے والے لکھاری نے 2000 سال سے بھی زیادہ قدیم سلطنت روما کا تصور کیا اور وہاں پر پسے ہوئے یہود کے حالات کو سوچا اور ایک یہودی کی بیٹی اور ایک رومی شہزادے کے درمیان ہونے والی محبت کی منظر کشی کی۔
ایسا تو تخیل بھی کرنے کے لئے بڑا دل اور بڑا دماغ چاہیے۔ مگر تب ایسے تجربات عام تھے، ویسے جہاں تک یہود کی بات ہے وہ تاریخ میں اکثر ہی مظلوم اور پسا ہوا طبقہ رہے ہیں مگر ان کے زوال سے ہی ان کے عروج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ بنی یعقوبؑ یعنی بنی اسرائیل دنیا میں جہاں بھی بسے اقلیت میں رہے، سوائے حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کے ادوار کے یہ کبھی دنیا کے کسی خطے کے حاکم نہ رہے۔ یہ کنعان سے مصر گئے اور وہاں پر عزیز کی حکمرانی کے وسیلے سے حاکم بنے۔
پھر فراعین کے ادوار میں یہ محکوم و مظلوم ہوئے۔ حضرت موسیٰؑ و ہارونؑ کے ساتھ ان کو مصر سے خلاصی ملی اور یہ دوبارہ کنعان (صیہون) میں وار د ہوئے، یہاں پر ان کو فلسطینیوں سے مبازرت کا سامنا رہا۔ پھر حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں ان کو عروج ملا اور یہ عروج حضرت سلیمانؑ کے بیٹوں تک بھی قائم رہا، بیٹوں میں سلطنت بٹ گئی اور جنگیں شروع ہو گئیں۔
پھر بابل و نینوا کی سلطنت کا حاکم بخت نصر (نبو کد نزر) ان پر حملہ آور ہوا۔ ہیکل سلیمانی کو تاراج کیا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر بابل لے گیا۔ یہاں یہ پھر محکوم و مظلوم ہوئے۔ پھر بخت نصر کے پوتے کے عہد میں (حضرت دانیالؑ کے دور میں ) بابل کی سلطنت فارسیوں اور کلدانیوں کے ہاتھوں تاراج ہوئی۔ اب بنی اسرائیل فارسیوں کے غلام تھے، کچھ نے دوبارہ کنعان کا رخ کیا مگر اب یہ وہ سلطنت نہ تھی جہاں یہ حضرت سلیمانؑ کے عہد میں شان سے رہتے تھے۔ یہ تو اب یونانی اور بعد ازاں روم کی سرحدی جاگیر تھی کہ جہاں بنی اسرائیل تیسرے درجے کے شہری تھے۔ یہودی کی بیٹی اسی دور کی کہانی ہے کہ کیسے حاکم و محکوم کے درمیان بھی محبت پل سکتی ہے۔
مگر یہود کی تاریخ یہاں پر ختم کب ہوتی ہے؟ یہود رومیوں کے ساتھ یورپ میں جگہ جگہ پہنچ تو گئے مگر سماج میں ان کا مقام اچھوت کا تھا۔ ایسے میں بیت اللحم میں حضرت عمران کی بیٹی کے یہاں عیسیٰ مسیحؑ نے جنم لیا۔ بنی اسرائیل نے وہاں کے رومی حاکم کے ساتھ مل کر حضرت عیسیٰ کو مصلوب کرنے کی ٹھانی۔ ہمارے عقیدے کے مطابق وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے، حضرت عیسیٰؑ کا پیغام ان کے زمین سے پردہ فرما جانے کے بعد بڑی تیزی سے حواریوں کے ذریعہ سے رومیوں میں پھیلنے لگا اور ہوا کچھ یوں کہ چند ہی صدیوں میں اکثر روما عیسائی ہونے لگا۔
رومی حکام بڑی سختی سے عیسائی ہونے والوں پر مظالم کرتے مگر شاہ قسطنطین کے قبول مسیحیت کے بعد سے مسیحیت ہی روما کا شاہی مذہب بنا۔ اب تو یہود پر نئی مصیبت نازل ہوئی، عیسائیت کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کرنے والے یہودی تھے تو ظاہر ہے کہ تب یہود کے ساتھ کیا سلوک شروع ہوا وہ تاریخ میں تفصیل سے درج ہے۔ مگر ان سب مشکل حالات نے یہود کو بہت سخت جان اور متحد بنا دیا۔ فرعون، بخت نصر سے لے کر شاہ روم اور ہٹلر تک کے جبر برداشت کر کے یہ گروہ ایک بے حد متحد اور بے حد کائیاں گروہ بن گیا۔
آج کی تاریخ میں دنیا بھر میں کہیں بھی یہود مظلوم یا محکوم نہیں ہیں، اب وہ قوی ہیں، دنیا کی رائے عامہ پر اثر انداز ہیں اور دولت مند ہیں۔ ان کا اثر اتنا ہے کہ امریکا ایک طور پر ان کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ برطانیہ ان کے ہاتھوں میں یرغمال ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد جارڈکشنر (جو یہودی ہے ) آج امریکا کا مشرق وسطیٰ کا مشیر یعنی عملاً عرب دنیا کا وائسرائے ہے۔ اسرائیل قوی ہے اور ساری عرب دنیا اس کے آگے سرنگوں ہے، یہ وہ ”یہودی کی بیٹی“ والا عہد نہیں، یہ ”ولادسلا اسیلمین“ کا 1945 والا عہد بھی نہیں، یہ بخت نصر اور فرعون کا عہد بھی نہیں۔
یہ وہ دور ہے کہ جب یہود مضبوط بھی ہیں اور غالب بھی۔ اب جو کہانی لکھی جائے گی وہ ”یہودی کی بیٹی“ نہیں ہو گی۔ اب کہانی کا عنوان ہو گا ”یہودی کا داماد“۔ وہی داماد جس نے اپنے سسر سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اس کا ساتھ دیں تو صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔ وہی داماد جس کے دونوں بیٹے اسی یہودی کی بیٹی کے پاس پرورش پا رہے ہیں۔ ایک یہودی کا بیٹا، جارڈکشنر ساری ٹرمپ انتظامیہ پر نظر رکھے اور مشرق وسطیٰ کو امریکی قوت سے قابو کیے واشنگٹن میں بیٹھا ہے۔
دوسری یہودی کی بیٹی اپنے شوہر کی اسٹیئرنگ سنبھالے لندن میں بیٹھی ہے۔ یہ زوال کا نہیں، یہود کے عروج کا زمانہ ہے۔ وہ زمانہ کہ جب دجال ظاہر ہو گا، وہ زمانہ کہ جب یہود یہ نعرہ بلند کریں گے کہ یہ اصل مسیح ہے، وہی زمانہ کہ جب آخری جنگ لڑی جائے گی۔ احادیث میں اس جنگ کا مقام شام بتایا گیا ہے، احادیث میں شام کا جو احاطہ ہے اس میں اردن، اسرائیل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ بالآخر یہود کو وہی کامل عروج حاصل ہونے کو ہی ہے کہ جس کا ذکر احادیث میں تفصیل سے آیا ہے، وہی دور جب یہود کے خلاف کوئی چوں بھی نہ کر سکے گا، وہی دور جب سب یہود کو ”تسلیم“ کر لیں گے، یہودی کا داماد تو محض اپنا کام کر رہا ہے، وہی کام جو تاریخ نے اسے تفویض کیا ہے۔