گزشتہ روز برسوں سے نیویارک میں مقیم متحرک صحافی دوست ندیم منظور سلہری نے فون پر دعوت دی کہ پاکستان سے دیسی گھی سے بنی سپیشل ”پنجیری“ کی سوغات آئی ہے، پہلی فرصت میں بروکلین پہنچیں تاکہ چائے کے ساتھ یہ پیش کی جا سکے۔ دیسی گھی اور پنجیری کے الفاظ سننے کے ساتھ ہی دماغ میں تیس سال پہلے یونیورسٹی ہاسٹل میں چوری ہونے والی اپنی 5 کلو دیسی گھی میں تیار شدہ پنجیری کی یاد تازہ ہو گئی اور دماغ میں ”پنجیری“ چوری کی اس انوکھی واردات کے واقعہ کی فلم چلنی شروع ہو گئی۔
جائے وقوعہ واردات :
کمرہ نمبر 17 عمر ہاسٹل، بغداد الجدید کیمپس، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور۔
نئے سال کی آمد بعد جنوری 1988 ء کے انہی آیام کی بات ہے جب ان دنوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایم اے پولئٹیکل سانئس کے سالِ دوئم کا طالب علم تھا۔ گزرے دسمبر کی دس چھٹیاں گجرات گھر میں گزار کر جب بہاولپور کے لیے واپسی کا ارادہ کیا تو گھر والوں نے آتے وقت دیسی گھی اور وافر مقدار میں بادام، پستہ، اخروٹ، چاروں مغز اور دیگر خشک میوہ جات میں تیار کردہ ”پنجیری“ کا ایک 5 کلو والا (ڈالڈا گھی) ڈبہ میرے حوالے کیا۔ تاکہ صبح کا ناشتہ اس سے کیا جا سکے۔
ہاسٹل میں ان دنوں ناشتے میں چائے کے ساتھ مخصوص قسم کا میٹھا بند اور اس میں لگا ہوا انڈا یا پھر انڈا فرائی کے ساتھ بریڈ ہی ملتی تھی۔ ہم جیسے چھوٹے شہروں سے آئے ہوئے پراٹھوں کے شوقین سٹوڈنٹس مسلسل اس طرح کے ناشتے کی آئٹموں سے جلد اکتا جاتے۔ اور اکثر اپنے ناشتے کا بندوبست خود سے کر کے رکھتے تھے۔
ہاسٹل میں ناشتے کی میری اس مسلسل دقت کو دیکھ کر گھر والوں نے تالے میں بند پنجیری کے پانچ کلو کے ڈبے کی چابی میرے حوالے کرتے ہوئے تاکید نما نصیحت بھی کی تھی کہ اس پنجیری کی تاثیر چونکہ خاصی گرم ہوتی ہے، اس لیے ناشتے میں ایک مناسب مقدار یعنی چار، چھ چمچ سے زیادہ نہیں کھانی اور اگر توازن کے ساتھ کھائی تو تمھارا ایک مہینہ نکل جائے گا۔
پنجیری، آلسی، باجرے، گندم، چاول اور دوسری اجناس سے تیار کردہ مرکبات، پنیاں اور دیگر سوغات سال ہا سال سے برصغیر پاک و ہند کے اکثر علاقوں خصوصاً پنجاب کے لوگوں کی پسندیدہ اور سردیوں کی خاص سوغات رہی ہیں۔ زمانہ قریب میں ایسی صحت بخش خوراکوں اور سوغاتوں کو تیا کرنے والے ہمارے بزرگ، خصوصاً خواتین مائیں بہنیں جو 1930 ء، 40 ء، 50 میں کی دہائی میں پیدا ہوئیں، بڑی چاہت سے اپنی اولاد کے لیے ایسی چیزیں تیار کرتی تھیں، اور تحائف کے طور عزیز واقارب اور دوست احباب بھجوائی جاتی تھیں۔
اب ایسی چیزوں کو تیار کرنے اور حتی کہ کھانے والے بھی اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ جنک فوڈ کی دلدادہ نئی نسل تو اب ویسے ہی ایسی چیزوں سے الرجک ہے اور انہیں مضرِ صحت تصور کرتی ہے۔
آج بھی پنجاب کے بہت سارے علاقوں میں پنجیری کو عام طور پر حاملہ خواتین کی نیوٹیرشین اور ایک صحت مند اضافی غذا کے طور پر استعمال کروایا جاتا ہے۔ جس میں شامل اجزاء ہر علاقے میں الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ آج سے کوئی پچاس سال پہلے زیادہ تر خواتین زچگی کے بعد بچوں کو اپنا دودھ پلایا کرتی تھیں، جس کی شرح آج کل بہت کم ہو گئی ہے۔ اس قسم کے پنجیری ماؤں کو زچگی کے دوران ہونے کمزوری کو دور کرنے اور ان میں بچوں کو لیے دودھ کو بڑھانے کے طور پر بھی استعمال کروائی جاتی تھیں۔
جس پنجیری کا میں ذکر کرنے لگا ہوں اس کو سبھی استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ پنجیری چنے اور ماش کی دال سے دیسی گھی میں تیار کی گئی تھی۔ جس کی ریسپئی یہ ہے کہ چنے اور ماش کی ہم وزن دال کو صاف کر کے رات کو دودھ میں بھگو دیا جاتا ہے، صبح دالوں کو دودھ سے الگ کرکے خشک کرنے بعد ایک بڑی کڑاہی میں بھون کر نیم پکا کر پیس لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دالوں کے ہم وزن دیسی گھی اور چینی کی کڑاہی میں چاس تیار کر کے دالوں کے پسے ہوئے آٹے کو تھوڑا تھوڑا کر کے ہلکی آنچ پر رکھی چاس شدہ کڑاہی میں ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ اور چمچ اس میں مسلسل گھماتے رہتے ہیں تا کہ مرکب ہموار رہے۔ پھر بادام پستے، اخروٹ و دیگر میوہ جات کی نمایاں آمیزیش اس میں ڈال دی جاتی ہے۔
ہمارے گھر میں رشتے میں ہماری ایک ممانی جنھیں ہم باجی پروین کے نام سے پکارتے ہیں (وہ گزشتہ سال سے فالج کے اٹیک کے بعد سے علیل ہیں، اللہ انہیں اچھی صحت کے ساتھ سلامت رکھے ) ایسی چیزیں بنانے کی ماہر تھیں اور آج جس پنجیری کا میں یہاں ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ بھی تیس سال پہلے انہی کی تیار کردہ تھی۔
پنجیری کو چوری ہونے کے ڈر سے میں نے محلے میں لوہے کی چادروں اور گھی کے خالی کنستروں سے بالٹیاں وغیرہ بنانے والے چاچا سلیمان (اب مرحوم) سے پنجیری کی حفاظت کے لیے ڈبے کو خصوصی طور پر ایسا ”لاک اپ“ سسٹم ڈھکن لگوا تھا جس کی وجہ سے ڈبے کو ایک چھوٹی سی تالی سے لاک کیا جا سکتا تھا۔
ہاسٹل واپس پہنچ کر میں نے پنجیری کے اس ڈبے کو اپنے پولیس نما نواری پلنگ کے نیچے رکھ دیا تاکہ کمرے میں آنے والے دوستوں کے شکم سے محفوظ رہ سکے۔ لیکن ہم اتنے بھی کھٹور اور اکیلے اکیلے کھانے والے بھی نہیں تھے۔
چار جگری کلاس فیلو دوستوں، ظہیر الدین بابر، معین حیدر نقوی، ندیم نونی اور اپنے پاکپتن کے طلعت فاروق ہنجرا کو خوشی خوشی پنجیری کی آمد کی اطلاع دی۔ اور دعوت دی کہ رات کو کمرے میں تشریف لائیں تاکہ آپ حضرات کی پنجیری سے تواضع کی جا سکے۔
پھر رات آئی، اور مزکورہ مہمان دوست بھی آ گئے تو میں نے کنٹین میں ایک کلو دودھ پتی کا آرڈر دیا۔ اور پلنگ کے نیچے سے جھک کر پنجیری کا ڈبہ نکالا، چابیوں کے گچھے کے ساتھ پروئی ہوئی ننھی سی چابی کے ساتھ دبے کا تالہ کھولا، ایک بڑی سی پلیٹ میں کوئی آدھ کلو یا تین پاؤ کے قریب پنجیری ڈال ان کے سامنے رکھ کر ڈبے کو تالا لگا کر اس کے مقام پر رکھ دیا۔ اور انہیں بھی وہی نصیحت دہرائی کہ اس کی تاثیر چونکہ گرم ہے اس لیے زیادہ نہیں کھانی۔
اسی دوران سبھی اشتیاق کے ساتھ اس ساری کارروائی سے محظوظ بھی ہوتے رہے اس دودھ پتی کے ساتھ مزے لے لے کر کھاتے رہے اور ساتھ ساتھ واہ واہ۔ مزہ آگیا کے نعرے بھی بلند کرتے رہے۔ پلیٹ سے جونہی ”سودا“ ختم ہوا تو ان کی ڈیمانڈ پھر سے بڑھنے لگی۔ بہرحال میری طرف سے مسلسل ”ہیور نیں بھئی جوانو۔ ! اور“ تاثیر گرم ہے ”کی گردان کے بعد یہ محفل برخاست ہو گئی۔
اگلا دن حسبِ معمول کیمپس میں گزرا، رات آئی تو ہم دست میس میں کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر کامن روم میں ٹی وی دیکھتے اور مجھ سمیت پانچوں روزانہ ہی کسی ایک دوست کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پیتے۔ پنجیری چوری ہونے کی اس بدقسمت رات کو بھی ہم اپنے لاہوری دوست ندیم نونی کے کمرے میں اکٹھے ہوئے۔
اب میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اگلے ایک گھنٹے میں میرے ساتھ پنجیری چوری کی واردات ہونے جا رہی ہے۔ ہوا یوں کہ نونی کے کمرے میں آ کر میری حسبِ معمول عادت یہ تھی کہ میں اپنی چابیوں کا گچھا (کی رنگ) اس کی ٹیبل پر رکھ کر سیدھا بیڈ پر کمبل لپیٹ کر بیٹھ جاتا۔ باقی دوست بھی آتے چلے جاتے اور جس جس کو جہاں جگہ ملتی آ کر بیٹھ جاتا۔
مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ پلاننگ باقی چاروں کی اسی وقت سے بن گئی تھی جب وہ میرے کمرے سے پنجیری کھا کر نکلے تھے۔ اب واردات یوں شروع ہوتی ہے کہ میری طرف پیٹھ کر کے طلعت ہنجرا نے ٹیبل سے میری کی رنگ اٹھائی اور وہ اور نقوی کنٹین میں چائے آرڈر کرنے کے بہانے کمرے سے نکلے، چائے کا آرڈر دینے کے بعد یہ سیدھے میرے کمرے میں پہنچے، آرام سے تالا کھولا۔ پھر پلنگ کے نیچے سے پنجیری کا ڈبہ نکال کر ساری پنجیری ایک شاپر بیگ میں منتقل کی اور خالی ڈبے کو واپس تالا لگا کر اسے ہاسٹل کے درمیان بنے لان میں اس جگہ پر رکھا دیا گیا، جہاں سے میں نے گزر کر واپس اپنے کمرے میں آنا تھا۔ اس ساری واردات کو بمشکل پانچ منٹ لگے ہوں گے۔ اور چائے آنے سے پہلے یہ دونوں واردات ڈال کر واپس کمرے میں آ چکے تھے۔ بڑی بڑی اور نوک دار مونچھوں والا طلعت فاروق ہنجرا چونکہ اکثر سردیوں چادر کی بُکل مارے رکھتا تھا، اور آج بھی وہ۔ بقول فیض احمد فیض
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پس پردہ کوئی ساحر ہے
اس طرح ہے کہ پس پردہ کوئی ساحر ہے
کے مصداق آج بھی وہ اُسی بُکل میں پنجیری چھپا ئے میرے ساتھ بیڈ پر کمبل لپیٹے بیٹھا تھا۔ اور میں ”نی سسیے بے خبرے تیرا لٹییا ای شہر بھنبور“ کی تصویر بنا بے خبری میں لٹ چکا تھا۔ اور بالکل نارمل انداز سے گپ شپ اور چائے کا دور چل رہا تھا۔
کوئی رات دس بجے کے قریب محفل برخاست ہوئی اور سب نے اپنے اپنے کمروں کی راہ لی۔ میں بھی ہوسٹل کے برآمدے میں خراماں خراماں خراماں چلتا ہوا جب اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا تو عین لان کے درمیان پڑے اپنے پنجیری کے ڈبے کو پڑا دیکھ کر ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن پھر فوراً ہی خیال آیا کہ میرا ڈبہ تو پلنگ کے نیچے پڑا ہوا ہے اور وہ یہاں کیسے آ سکتا ہے۔ اور دوسرا کمرے کی چابیاں بھی میرے پاس ہی ہیں۔
اسی طرح کے خیالات کو ذہن میں لیے ہوئے کمرے کا تالا کھول کر پہلا کام ہی یہ کیا کہ اپنی مزید تسلی کے لیے پلنگ کے نیچے جھک کر جب نظر دوڑائی، تو یقین مانیں، دل دھک سے رہ گیا۔ ۔ پلنگ نیچے سے ”خالم خالی“ اور بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ یہ کیا اور کیسی واردات ہو گئی ہے میرے ساتھ، کمرے کی چابیاں سارا وقت میرے پاس تھیں۔ پھر کیا جن بھوت ڈبہ اٹھا باہر لے گیا ہے۔ کمرہ بند کیے بنا ہی باہر دوڑ لگائی اور جاکر دیکھا تو وہ میرا ہی ڈبہ تھا، تاہم پھر بھی امید یہی تھی کہ چونکہ کنڈی اور تالا صحیح طریقے سے لگا ہوا ہے، پنجیری اندر ہی ہے، ڈبے کے کور کے اوپر بنی ہک سے جب اسے اٹھایا تو وہ بے وزن ہرجائی اوپر ہی اوپر اٹھتا چلا گیا۔
اب کیا تھا، نا امید اور ہارے ہوئے لشکر کی طرح وہیں بیٹھ گیا، رگ و پے میں اک عجیب سی نقاہت محسوس ہوئی۔ سردی کے باوجود ٹھنڈے پیسنے آ رہے تھے۔ کافی وقت ایسے ہی گزر گیا تو دیکھا ارد گرد کے برآمدوں میں گزرنے والے اکثر طلباء معنی خیز نظروں سے رک رک دیکھ رہے تھے۔ کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور خالے ڈبے کو اٹھا کر واپس کمرے میں آگیا۔
کمرے کو بند کیا اور سوچتا ہوا سیدھا سیکنڈ فلور پر معین نقوی کے کمرے کو جا کر کھتکٹایا۔ میرا پہلا شک اس پر اس لیے گیا تھا کہ ہم دونوں نے اپنے اپنے کمروں کی ایک ایک اضافی چابی ایک دوسرے کے پاس ایمرجنسی کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ اور وہ میرا سب سے زیادہ راز داں اور قابلِ اعتبار بھی تھا (نقوی صاحب آج کل لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ ہیں )
معین نقوی چونکہ اہلِ زبان تھا اور ایک اردو سپکینگ فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ، جاتے ہی پہلے تواُسے اردو میں سخت سست سنانے کے باقاعدہ گالیوں کی برسات کر دی، لیکن مجھے جلد ہی اردو زبان میں گالیوں کی اپنی کم ماہیئگی اور ناپختہ گرائمر احساس ہو گیا، دوسرا میں اپنے جبڑے تھکتے دیکھ کر اردو سے پنجابی پر اتر آیا۔ اور کہنے دیں کہ عام فہم گالیوں کے حوالے سے جو زرخیزی، روانی و سیلانی اور فصاحت یہاں دستیاب ہے اس کا جواب نہیں ہے۔
نقوی میرے غصے کی شدت اور گالیوں کے جواب میں روہانسا ہو کر بار بار ایک ہی بات کی قسمیں کھائے جا رہا تھا کہ یہ واردات اس چابی سے نہیں ہوئی جو آپ نے امانت کے طور پر میرے پاس رکھوائی ہوئی ہے۔ جب اس نے اتنی قسمیں کھا لیں اور میرا غصہ بھی کچھ کم ہو گیا تو پھر میں نے دوسرے آپشنز پر غور شروع کردیا کہ یہ سب کیسے ہوا ہے۔
اب چونکہ رات خاصی گزر چکی تھی اور صبح کلاس بھی تھی۔ واپس کمرے میں آ کر بستر پر لیٹے لیٹے اور اپنی پنجیری کے ساتھ ہونے والی واردات کی کڑیاں ملاتے ملاتے رات گزر گئی۔ اور اس طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ یہ واردات تو میری اپنی ہی چابیوں سے بھی ہو چکی ہے۔
اگلے دن جب کیمپس میں کلاس روم داخل ہوا تو دیکھا کہ باقی سب ساتھی کلاس فیلوز بشمول لڑکیاں مجھے دیکھ بے ساختہ قہقہے لگانے لگے، اپنی مخصوص سیٹ پر بیٹھتے ہی جو نقوی کے ساتھ ہی ہوتی تھی میری نظر سامنے بلیک بورڈ پر پڑی جہاں بڑے بڑے حروف میں ”اہم اطلاع“ کے نام سے یہ عبارت درج تھی۔
”نہایت افسوس کے ساؤتھ خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ گزشتہ رات کسی نے عمر ہاسٹل کے کمرہ نمبر 17 سے طاہر بھائی کی“ پنجیری ”چرا لی ہے۔ چوری کی اس واردات کے ملزمان کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ اپنے طاہر بھائی کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کی درخواست ہے“۔
یہ دوسرا بم شیل نما حملہ تھا۔ اب مجھے کچھ سمجھ میں آنے لگا لکھائی میں پہچان چکا تھا۔ میں نے نظریں گھما کر پچھلی رو میں بیٹھے طلعت ہنجرا کی طرف دیکھا تو اس نے مکاری سے ہنستے ہوئے اور معنی خیز انداز سے اشارہ ظہیر الدین بابر کی طرف کر دیا۔ اب دو ملزمان تو مجھے معلوم ہو ہی چکے تھے۔
اب سب آٹھ آٹھ کر اور باری باری میری سیٹ پر آ کر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرنے لگے۔ اکثر کے ”چیزے بازی“ کے موڈ میں ڈائیلاگ ایسے ہی تھے کہ ”اب صبر کریں، اللہ کو یہی منظور تھا“ فی میل کلاس فیلوز میں صائمہ، رخسانہ اور شگفتہ نے پھبتی کسی کہ طاہر بھائی آپ نے پنجیری ہمیں نہیں چکھائی اسی لیے وہ آپ کے ہاتھوں سے بھی نکل گئی۔
سب سے زیادہ ہمدردی مس خالدہ نے دکھائی، جس کے والد پولیس میں انسپکٹر تھے اور اتفاق سے انہی دنوں جس تھانے کی حدود میں یونیورسٹی آتی تھی اس کے انچارج ایس۔ ایچ۔ او تھے۔ مس خالدہ نے پیچھے کی رو میں بیٹھے طلعت ہنجرا، ظہیر الدین بابر، ندیم نونی کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے آفر کی تھی کہ ”اگر آپ کہیں تو میں ابو سے بات کرتی ہوں وہ ان“ بدمعاشوں ”سے نہ صرف آپ کی پنجیری برآمد کروائیں گے بلکہ ان کو جیل میں ڈالیں گے“۔
اس پر پیچھے سے ہمیشہ سے شرارتی ظہیر نے آواز لگائی تھی کہ ”مس ملزمان انتہائی باآثر ہیں، وہ ایس۔ ایچ۔ او صاحب کو رشوت لگا کر بہت جلد باہر آ جائیں گے“۔ جس پر کمرہ زور دار قہقہوں سے گونج اٹھا تھا۔
اس دور کی کتنی ہی حسین اور شیریں یادیں ہیں جو اس وقت عود عود کر چلی آ رہی ہیں۔
سارے کلاس فیلوز کے ہمارے پروفیسرز ڈاکٹر خالد جاوید مخدوم، حمید صاحب، طارق صاحب، اور میڈم رضیہ مسرت ( ڈاکٹر رضیہ مسرت آج شعبہ سیاسیات کی چیئر پرسن ہیں ) بھی میری پنجیری کی گمشدگی کے اس واقعہ کے اعلان کو پڑھ کر اور بعدازاں رپیٹ کر کے کئی روز تک خوب لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔
پنجیری چوری کی اس واردات میں ملوث چاروں ملزمان ظہیر الدین بابر، طلعت ہنجرا، ندیم نونی اور معین نقوی نے اسی دن اعترافِ جرم کر لیا تھا۔ اور واردات کی پرائم وجہ یہ بتائی تھی کہ پنجیری تھی ہی اتنی مزے کی کہ اسے چوری ہو جانا چاہیے تھا۔