ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
انسان ایک سماجی جانور ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے پر ایک انسان کو دوسرے انسانوں کے سہارے، ہمدردی اور محبت کی ضرورت ہے۔ ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے لیے دنیا میں رشتوں کو سمجھنا اور انسانی روابط قائم کرنا سیکھنا ضروری ہے کیونکہ ہر انسان کی ذاتی اور پروفیشنل زندگی کی کامیابی اسی مہارت سے جڑی ہوئی ہے۔
میرا اکلوتا بیٹا نوید جب تین سال کا تھا تو اس نے پری اسکول جانا شروع کیا۔ پہلے دن جب میں اس کو اسکول چھوڑنے گئی تو میں جیسے ہی اس کو کہتی کہ میں واپس جارہی ہوں تو وہ کھیل چھوڑ کر میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوجاتا۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ امی یہاں مجھے چھوڑ کر کیوں جارہی ہیں۔ آخر اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ جب وہ کھیل میں مصروف تھا تو میں چپکے سے باہر نکل گئی۔ پہلے دن وہ تھوڑا رویا لیکن پھر اس کا نئے اسکول میں دل لگ گیا۔ پری اسکول میں اس نے ایک کالی بچی سے دوستی کرلی تھی جس کا نام ایلی تھا۔ ایلی اور نوید سارا دن ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتے رہتے، ساتھ میں کھیلتے اور نوید کہتا کہ ایلی میری گرل ہے۔
جب نوید تیرہ سال کا تھا تو ایک دن میں اس کو رولر اسکیٹنگ پر لے گئی تھی جہاں پر وہ ایک لڑکی کو میرے پاس لایا اور بولا امی، یہ میری گرل فرینڈ ہے۔ میں اس بچی کو دیکھا۔ وہ 12 سال کی پتلی دبلی سی لڑکی جس کے چہرے پر فریکلز تھے اور دانتوں میں بریسز لگے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے کہا ”نائس ٹو میٹ یو! “ امی وہ سلینا گومیز کی طرح لگتی ہے ناں؟ نوید نے پوچھا۔ جی بیٹا، وہ بالکل سلینا گومیز کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ کچھ مہینے بعد مڈل اسکول ختم ہوگیا اور نوید ہائی اسکول چلا گیا اور ان کی دوستی ختم ہوگئی۔
اوکلاہوما ایک قدامت پرست ری پبلکن سرخ ریاست ہے جہاں ہر سڑک پر دقیانوسی عیسائی چرچ ہیں۔ یہ بائبل بیلٹ کا حصہ ہے۔ یہاں اسکولوں میں بچوں کو مناسب جنسی تعلیم دینا منع ہے جس کی وجہ سے یہاں ٹین ایج حمل سارے امریکہ کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ چونکہ میں بائیولوجی جانتی تھی، میں نے خود اپنے بچوں کو یہ تعلیم دی کہ خود کو کس طرح بچانا ہے۔ جو بھی گئی گزری تھوڑی بہت جنسی تعلیم اوکلاہوما کے پبلک اسکول فراہم کرتے ہیں، اس میں بھی میرے بچے شامل تھے۔ ہم نے دیگر مہاجرین کی طرح اپنے بچوں کو اس تعلیم سے محروم رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ جب لوگ کسی بات کو نہیں جانتے ہیں تو پھر وہ اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ والدین کو بھی تعلیم یافتہ کرنا ضروری ہے۔
بچوں کے اسکول میں ہر مہینے نئے تہوار پر کام ہوتا تھا۔ فروری میں میں بھی اور ماؤں کی طرح اپنے بچوں کے لیے ایک جوتے کے ڈبے پر تحفے والے رنگ برنگے کاغذ چڑھا کر ایک نقلی ڈاک کا ڈبہ بنادیتی جن میں وہ اور ان کے کلاس فیلوز ان کے لیے چھوٹے چھوٹے کارڈز، اسٹیکرز، چاکلیٹس اور تحفوں کا تبادلہ کرتے۔ اس سے یہ بچے سیکھ رہے تھے کہ محبت، دوستی، کشادہ دلی اور سخاوت کا کس طرح اظہار کرنا ہے۔ وہ یہ بھی سیکھ رہے تھے کہ اگر آپ کا نذرانہ قبول نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔
دنیا میں اور بھی لوگ ہیں۔ جہاں بچوں کو یہ تربیت نہیں ملتی وہاں وہ بڑی غلطیاں کرتے ہیں۔ میرے ساتھ فیلوشپ کے درمیان ایک 29 سال کا سعودی عرب کا ایک انٹرنل میڈیسن ریذیڈنٹ کام کررہا تھا۔ ہم سب یہ خبر دیکھ کر چونک گئے تھے کہ وہ اور ایک کارڈیالوجسٹ سڑک پر ایک طوائف سے خرید و فروخت میں پکڑے گئے تھے۔ وہ ایک انڈر کور پولیس افسر تھی اور اوکلاہوما کی ریاست میں پیسوں کے لیے جسم بیچنا جرم ہے۔ اوکلاہوما نیواڈا کی ریاست سے مختلف ہے جہاں ایسا کرنا غیر قانونی نہیں ہے۔
17 سال کی عمر میں نوید نے ایک ویت نامی لڑکی این اپنی گرل فرینڈ بنالی۔ وہ بہت پیاری لڑکی تھی جس کے والدین ویت نام سے اوکلاہوما یونیورسٹی میں پڑھانے آئے ہوئے تھے۔ وہ پڑھنے میں بھی بہت اچھی تھی اور ہر سبجیکٹ میں اس کے اے گریڈ آتے تھے۔ ایک مرتبہ نوید ان کے گھر گیا تو اس کے ابو نے چار گھنٹے بٹھا کر ان دونوں کو کالج ایڈمیشن کا میتھ کا ٹیسٹ کروایا۔ مجھے این بہت پسند تھی۔ وہ اور نوید ایک ساتھ بہت خوبصورت لگتے تھے۔
ان دونوں کی اکٹھی زندگی کے بارے میں میں نے لمبے چوڑے خواب بن لیے تھے۔ نوید اور این کی دھوم دھام سے کبھی شادی ہوجائے گی، ان کے چینی آنکھوں والے پیارے پیارے بچے ہوں گے اور وہ دونوں یونیورسٹی کی لیبارٹری میں سفید کوٹ پہن کر سائنس کے میدان میں کام کریں گے اور کینسر کا علاج دریافت کرلیں گے۔ نوید کو بھی اندازہ تھا کہ مجھے این پسند ہے اس لیے اس نے بری خبر ایک دم نہیں دی تھی۔ ایک دن وہ اور میں اس کی گاڑی میں نئے پہیے لگوا رہے تھے اور ٹائر شاپ کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھے ہوئے تھے جب اس نے مجھے کہا کہ امی، این اور میں نے بریک اپ کرلیا ہے۔
وہ کیوں بیٹا؟ میں نے پریشانی سے پوچھا۔ تم دونوں ایک دوسرے کے لیے کتنے پرفیکٹ تھے! اس نے کہا کہ باہر سے سب ٹھیک لگتا تھا لیکن ہماری شخصیات ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں اور ہم ذرا زرا سی بات پر الجھتے رہتے تھے۔ میں ایک ذہنی اذیت سے دوچار تھا۔ پہلے کئی بار جھگڑے کے بعد صلح کی تھی لیکن ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اپنے راستے جدا کرلیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔
جب نوید اور این کے ”ہیپی لی ایور آفٹر“ کے میرے خواب چکنا چور ہوگئے تو اس سے میں نے زندگی کا یہ اہم سبق سیکھا کہ ہمیں دوسرے انسانوں کی زندگی کی بنیاد پر اپنے خواب کھڑے نہیں کرنے چاہئیں۔
اس بات کو کچھ ہفتے گزر گئے اور ایک دن میں اپنا کلینک ختم کرکے گھر واپس آئی تو ہمارے گھر میں گرلز اسکاؤٹس کی میٹنگ تھی۔ میری بیٹی ایک گرل سکاؤٹ ہے جیسے میں بھی اپنے اسکول کے زمانے میں تھی۔ میں نے دیکھا کہ این بھی دیگر لڑکیوں اور ان کی ٹیچرز کے ساتھ آئی ہے۔ نوید بھی گھر پر تھا لیکن ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ این نے بھی خود کو محفوظ محسوس کیا ہوگا تبھی وہ ہمارے گھر واپس آئی۔ عدنان سعید آج بھی امریکہ میں جیل میں ہے۔ اس نے بریک اپ کے بعد اپنی ایشیائی گرل فرینڈ کو گلا دبا کر جان سے مار دیا تھا۔ اس کی اس حرکت سے دو خاندانوں کی زندگی تباہ ہوگئی تھی۔
جنسی جرائم کی سالوں سے پردہ پوشی اور بچوں کی شادیوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوپارہے ہیں۔ برطانیہ میں جنسی جرائم میں پاکستانی سب سے آگے پائے گئے ہیں۔ ہمیں اپنے بیٹوں کی بہتر تربیت کرنا ہوگی۔ ان کو اپنے مستقبل کی آمدن سے بڑھ کر انسان سمجھنا ہوگا۔ میں خود بھی یہ سب کچھ وقت کے ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کررہی ہوں۔ جب نوید نے این کے ساتھ بریک اپ کرنے کے بعد نئی گرل فرینڈ بنا لی تو میں نے اس نئے قصے سے خود کو الگ رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
کافی وقت گزر گیا لیکن ان دونوں نے بریک اپ نہیں کیا۔ وہ ساتھ میں خوش ہی نظر آتے تھے۔ اس نے اپنی نئی گرل فرینڈ کو کرسمس پر اپنی فیملی کے ساتھ ڈنر کرنے کے لیے گھر بلایا۔ وہ ایک خوش اخلاق لڑکی تھی جس نے مجھ سے کہا کہ میرے امی ابو اور دادی بھی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ جب بھی آپ لوگوں کے گھر کسی ویک اینڈ پر گیٹ ٹوگیدر ہو تو آپ مجھے بتا دیں، میں آجاؤں گی۔ میں نے دیکھا کہ نوید اور اس کی گرل فرینڈ نے ایک دوسرے کو انگوٹھیاں تحفے میں دی ہیں۔
کیا ان دونوں نے منگنی کرلی ہے؟ میرے ذہن میں سوال گزرا۔ اگر کر لیں گے تو خود ہی بتا دیں گے۔ نوید کی گرل فرینڈ کی انگوٹھی کو دیکھ کر میں نے اس سے پوچھا، نوید نے یہ پتھر کیوں چنا ہے؟ کیا یہ تمہارا برتھ اسٹون ہے؟ نہیں ۔ اس نے کہا، نوید نے اس لیے یہ رنگ چنا کیونکہ یہ میری آنکھوں کا رنگ ہے۔ میں نے چونک کر اوپر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ نوید کی ہرے آنکھوں والی گرل فرینڈ جس کی آنکھوں میں میرے بیٹے کے لیے محبت تھی۔