حیدر حسین
یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب قطب الدین اور ناصر بھائی پاکستان چوک پر کراچی کا مشہور انڈے والا بن کباب کھا کر ریسٹورنٹ سے باہر آ رہے تھے۔ رانگ سائڈ سے آنے والے ایک موٹر سائکل سوار نے سامنے سے آنے والے ایک ٹرک کو ذور دار ٹکر ماری (اخبار میں آپ نے یہ پڑھا ہوگا کہ ٹرک نے موٹرسائکل سوار کو کچل دیا مگر یہ فرضی واقعہ ایسے پیش نہیں آیا) ۔ ٹکر واقعی بڑی زور دار تھی اور موٹرسائکل سوار دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر زمین پر آرہا۔ ٹرک حسب معمول نو دو گیارہ ہوگیا اور قطب الدین اور ناصر بھائی جائے حادثہ کی طرف لپکے۔
قطب الدین: اوہ خدایا! کچھ کریں ناصر بھائی! چلیں اسے ہسپتال پہنچائیں۔
ناصر بھائی: ایک منٹ! ذرا حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرلو۔ ایسا نہ ہو ہم کچھ غلط کر بیٹھیں۔
قطب الدین: غلط؟ کیا مطلب ناصر بھائی؟ اگر ہم نے بروقت کچھ نہیں کیا تو اس بیچارے کی جان بھی جا سکتی ہے۔
ناصر بھائی: ایک منٹ! ذرا حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرلو۔ ایسا نہ ہو ہم کچھ غلط کر بیٹھیں۔
قطب الدین: غلط؟ کیا مطلب ناصر بھائی؟ اگر ہم نے بروقت کچھ نہیں کیا تو اس بیچارے کی جان بھی جا سکتی ہے۔
ناصر بھائی: اس شخص کی جان بچانا اتنا اہم کیوں ہے؟
قطب الدین: کیونکہ ہم ایسا کر کے خدائی فرمان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ ایک زندگی کی اہمیت ہر شے پر مقدم ہے۔ کیونکہ یہ ہماری طرح کا ایک انسان ہے۔
قطب الدین: کیونکہ ہم ایسا کر کے خدائی فرمان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ ایک زندگی کی اہمیت ہر شے پر مقدم ہے۔ کیونکہ یہ ہماری طرح کا ایک انسان ہے۔
ناصر بھائی: چلو تمہارے دلائل کا ایک ایک کر کے جائزہ لیں۔ کیا خدا ہمیں اس انسان کو بچانے کا حکم اس لئے دیتا ہے کیونکہ یہ ایک نیک عمل ہے؟ یا یہ ایک نیک عمل اس لئے ہے کہ خدا ہمیں ایسا کرنے کا کہتا ہے؟
قطب الدین: ارے بھئی یہ اس لئے نیک ہے کیونکہ خدا نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ناصر بھائی: دوسرے الفاظ میں یہ خدائی حکم محض اتفاقی اور صوابدیدی ہے۔ اگر خدا ہمیں اس شخص کو ختم کرنے کا حکم دے دیتا تو پھر تمہارے نزدیک یہی حکم درست اور نیک قرار پاتا؟
قطب الدین: استغفراللہ۔ کیا کہہ رہے ہیں ناصر بھائی۔ میرا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس شخص کی جان بچانا ایک نیک عمل ہے اسی لئے خدا نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ناصر بھائی: دوسرے الفاظ میں یہ خدائی حکم محض اتفاقی اور صوابدیدی ہے۔ اگر خدا ہمیں اس شخص کو ختم کرنے کا حکم دے دیتا تو پھر تمہارے نزدیک یہی حکم درست اور نیک قرار پاتا؟
قطب الدین: استغفراللہ۔ کیا کہہ رہے ہیں ناصر بھائی۔ میرا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس شخص کی جان بچانا ایک نیک عمل ہے اسی لئے خدا نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ناصر بھائی: مطلب یہ ہوا کہ غلط اور صحیح کا فرق یا کسی عمل کی اخلاقی برتری کی پہچان خدائی احکامات سے ہٹ کر یعنی آزادانہ طور پر بھی موجود تھی۔ اگر ایسا ہے تو پھر خدائی حکم کی اہمیت ثانوی ہے اور ہمیں اس عمل کا تجزیہ خالص اخلاقی پہلو سے کرنا پڑے گا۔ اب آتے ہیں ہم تمہاری دوسری دلیل پر، کہ یہ ایک زندگی کا سوال ہے۔ یہ بتاؤ کہ اگر اس شخص کی جگہ کوئی آوارہ کتا ہوتا تو بھی تم اس کی زندگی بچانے کے لئے اتنے ہی بے تاب ہوتے؟
قطب الدین: شاید نہیں
ناصر بھائی: مطلب زندگی بجائے خود اتنی اہم نہیں مقابلتاً اس کے کہ اس زندگی کا تعلق کس سے ہے۔
قطب الدین: شاید ہاں
ناصر بھائی: مطلب زندگی بجائے خود اتنی اہم نہیں مقابلتاً اس کے کہ اس زندگی کا تعلق کس سے ہے۔
قطب الدین: شاید ہاں
ناصر بھائی: تو پھر ہم آتے ہیں تمہاری تیسری دلیل پر، کہ یہ ہماری طرح کا ایک انسان ہے۔ یہ بتاؤ کہ اس کے ”ہماری طرح“ ہونے کا اندازہ تم نے کیسے لگایا؟ کیا فقط اس سے کہ یہ ہماری طرح دکھتا ہے؟ یا اس مفروضے سے کہ اس کے قدروخصائل بھی ہماری طرح ہوں گے؟
قطب الدین: آپ نے تو اس معاملے کو بہت الجھا دیا ہے۔ انسانی معاشرہ تعاون سے ہی وجود میں آتا ہے۔ کیا اس معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے سے ایک طرح کے معاہدے کے تحت بندھے ہوئے نہیں؟ ایسا معاہدہ جو ہمیں ایک دوسرے کی جان و مال کا ضامن بناتا ہو؟
ناصر بھائی: تم نے دستخط کیے ہیں اس معاہدے پر؟ یا اس شخص نے؟ یا پھر تم یہ فرض کر رہے ہو کہ فقط اس شخص کا یہاں پیدا ہو جانا ہی اسے ایسے کسی معاہدے کا فریق بنا دیتا ہے؟ یا چلو یہ بتاؤ کہ کیا یہ شخص اس خلائی معاہدے کا پاس کرتا رہا ہے؟ اگر ان سوالوں کے جوابات حتمی نہیں تو پھر ایسے کسی معاہدے کی قانونی یا اخلاقی صحت کا کیا جواز باقی رہا؟
قطب الدین: ناصر بھائی، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اعمال ایسے ادا کریں جیسے کہ ہم دوسروں سے توقع کرتے ہوں۔ حتی کہ ان اعمال کا ایسے ادا کرنا ایک کائناتی اصول بن جائے۔ ایسا اصول جس سے انحراف ممکن نہ ہو۔
ناصر بھائی: یہ بات سننے میں جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی غیر عملی ہے۔ کیا پتہ کہ یہ ایک دہشت گرد ہو۔ تم اس کی مدد کرو اوربعد میں اس کا اجتماعی نقصان اٹھانا پڑے؟
قطب الدین: لیکن آپ کو یہ حتمی طور پر نہیں معلوم۔
قطب الدین: لیکن آپ کو یہ حتمی طور پر نہیں معلوم۔
ناصر بھائی: بالکل درست! ہمیں نہیں معلوم۔ کیونکہ تمام حقائق ہمارے علم میں نہیں۔ لہذا ایسی صورت میں ہم کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہم فقط یہ کرسکتے ہیں کہ منطق کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔ میں اپنی پچھلی بات کی طرف آتا ہوں۔ اگر یہ ایک دہشت گرد نہیں اور ہم اس کی مدد کرتے ہیں تو ہم صرف ایک زندگی بچائیں گے۔ لیکن اگر یہ ایک دہشت گرد ہوا تو ہم نہ جانے کتنی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں گے۔ کیا یہ منطقی نتیجہ، خاص طور پر جب معلومات نہایت محدود ہیں، درست نہ ہوگا؟
[اب قطب الدین اور ناصر بھائی کے گرد کافی لوگ جمع ہوگئے تھے جو بڑے ہی انہماک سے یہ بحث سن رہے تھے۔ ]
قطب الدین: لیکن ناصر بھائی انسان کا اپنا ضمیر بھی تو کوئی چیز ہوتا ہے۔ میرا ذاتی اطمینان، میری ذاتی خوشی اس بات میں نہیں ہوگی کہ میں اس کی زندگی بچاوں؟
قطب الدین: لیکن ناصر بھائی انسان کا اپنا ضمیر بھی تو کوئی چیز ہوتا ہے۔ میرا ذاتی اطمینان، میری ذاتی خوشی اس بات میں نہیں ہوگی کہ میں اس کی زندگی بچاوں؟
ناصر بھائی: پھر تو تم صرف ایک خودغرض شخص ہوئے جو فقط اپنے ذاتی اطمینان، اپنی ذاتی خوشی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
قطب الدین: (جھنجلا کر) ارے نہیں بھائی۔ میں خودغرض نہیں۔ اس کی زندگی کی اہمیت میری غرض سے زیادہ ہے۔
قطب الدین: (جھنجلا کر) ارے نہیں بھائی۔ میں خودغرض نہیں۔ اس کی زندگی کی اہمیت میری غرض سے زیادہ ہے۔
ناصر بھائی: پھر تو بحث وہیں آن کھڑی ہوئی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ وی آر بیک ٹو اسکوئر ون!
قطب الدین: اچھا فقط ایک نیک شخص کی طرح عمل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ خیر اندیشی ایک نیکی ہے۔ لہذا اس شخص کی مدد نہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
قطب الدین: اچھا فقط ایک نیک شخص کی طرح عمل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ خیر اندیشی ایک نیکی ہے۔ لہذا اس شخص کی مدد نہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
ناصر بھائی: غلامی ایک وقت میں مباح تھی اب غلط ہے۔ نیو یارک میں چرس پینا جرم ہے مگر مشی گن میں کوئی برائی نہیں۔ ہمارے یہاں زنا بالجبر بدترین برائی ہے مگر اپنی بیوی سے زبردستی مباشرت مرد کا حق تصور ہوتا ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ کسی عمل کے درست ہونے کی تعریف وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اس وقت حالات یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہم تمام عوامل کا جائزہ لیں۔ اور پھر تم ایک اور نکتہ بھول رہے ہو۔ قانونی معاملہ۔ تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پولیس الٹا ہمیں ہی اس معاملے میں پھنسا دے گی اور عینی شاہدین بھاگ کھڑے ہوں گے۔ لہذا یہ ہماری اپنی زندگی کا سوال بن جائے گا اور خود تمہارے الفاظ میں ”ایک زندگی کی اہمیت ہر شے پر مقدم ہے“۔
قطب الدین: (زچ ہوتے ہوئے ) لیکن زندہ رہنا اس شخص کا بھی حق ہے۔
ناصر بھائی: میں کب اس بات کا انکار کر رہا ہوں؟ لیکن کیا اس کا زندہ رہنے کا حق مجھے اس کی زندگی بچانے پر مجبور کرتا ہے؟
ناصر بھائی: میں کب اس بات کا انکار کر رہا ہوں؟ لیکن کیا اس کا زندہ رہنے کا حق مجھے اس کی زندگی بچانے پر مجبور کرتا ہے؟
( اس اثنا میں بچارے موٹرسائکل سوار نے اپنی آخری سانس لی اور راہی ملک عدم ہو رہا)
قطب الدین: یا خدا! لگ رہا ہے کہ یہ تو چل بسا۔ ناصر بھائی۔ ہم کیا کر سکتے تھے؟ ہم نے کیا نہیں کیا؟
قطب الدین: یا خدا! لگ رہا ہے کہ یہ تو چل بسا۔ ناصر بھائی۔ ہم کیا کر سکتے تھے؟ ہم نے کیا نہیں کیا؟
ناصر بھائی: (افسردہ آواز میں ) اسے یوں سمجھو قطب الدین۔ حالات و واقعات کا منطقی جائزہ لینے کے بعد ہم اس فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ درست اخلاقی قدم کیا ہوتا۔
قطب الدین: ویسے دل تو نہیں مان رہا لیکن آپ سے اتفاق ہی کرنا پڑے گا۔ یہی ایک منطقی نتیجہ لگتا ہے۔
قطب الدین: ویسے دل تو نہیں مان رہا لیکن آپ سے اتفاق ہی کرنا پڑے گا۔ یہی ایک منطقی نتیجہ لگتا ہے۔
اختتامیہ:
آدھے گھنٹے کے بعد ایدھی کی ایمبولینس نعش کو ایمبولینس میں رکھ رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے ہوئے مباحثے سے متاثر ہو کر چند افراد اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ کونے میں پڑی موٹر سائکل کے ساتھ کیا کرنا منطقی اور اخلاقی لحاظ سے مناسب ہوگا۔ اپنے گھر کی راہ لیتے ہوئے قطب الدین کتابوں کی ایک قریبی دکان پر جانے کا سوچ رہا تھا تاکہ فلسفہ اخلاقیات کی کچھ بنیادی کتب کی خریداری کی جاسکے۔
آدھے گھنٹے کے بعد ایدھی کی ایمبولینس نعش کو ایمبولینس میں رکھ رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے ہوئے مباحثے سے متاثر ہو کر چند افراد اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ کونے میں پڑی موٹر سائکل کے ساتھ کیا کرنا منطقی اور اخلاقی لحاظ سے مناسب ہوگا۔ اپنے گھر کی راہ لیتے ہوئے قطب الدین کتابوں کی ایک قریبی دکان پر جانے کا سوچ رہا تھا تاکہ فلسفہ اخلاقیات کی کچھ بنیادی کتب کی خریداری کی جاسکے۔