شادی کی تقریب سے زیادہ یہ سندھ کی وڈیرہ شاہی کا کھلم کھلا اظہار تھا۔ پیسے کا بہاؤ بازار میں کھڑی کسی طوائف کی طرح سارے بند توڑ چکا تھا۔ سندھ کی روایتی ٹوپیوں اور اجرکوں میں ملبوس گردنیں تانے لوگوں کے جسم گر چہ مہنگی مہنگی خوشبوؤں میں بسے ہوئے تھے پر جانے کیوں فضا میں سندھ کی قاتل روایتوں کے بھبھکے اڑ اڑ کر سڑاند بھر رہے تھے۔ میں عالمِ بے زاری میں واٹس ایپ پر خود کو مصروف رکھنے کی بے تکی سی کوشش کر رہی تھی کہ میری بیٹی نے ساتھ والی کرسی پر ڈیرا جمایا اور وڈیرے کا مطلب پوچھ ڈالا۔
سوال کے ساتھ بیٹی کا اشتیاق اور میری بے زاری مزید بڑھ گئی۔ سندھ کی دھرتی سے تعلق رکھنے والی اپنی سات پھوپھیوں کے چہرے میری نظروں کے سامنے گھومے اور میں صبر کے بڑے بڑے گھونٹوں کے ساتھ جواب بھی پی گئی، لیکن وہ بھی میری ہی بیٹی تھی ہار کیسے مان جاتی؟ جواب جاننے کی لگن میں میرے بازو پر مسلسل اپنی کہنی سے ٹہوکے لگاتی رہی۔ میں نے مجبوراً انتہائی بے تکا جواب دیا کہ بیٹا وڈیرے سندھ کے ہوتے ہیں ناں۔ بیٹی نے جھٹ کہا، ”ماما! سندھ کے وڈیرے مطلب سندھ کے چور؟ “ میں بری طرح سٹپٹا گئی۔ بیٹی کو گھورتے ہوئے جلدی سے آس پاس دیکھا اور سکون کا سانس بھرا۔ یہ اور بات کہ زیادہ اطمینان اس بات کا تھا کہ چھوٹی سی عمر میں اس نے ایک پوری صدی کے استحصالی نظام کا فلسفہ اپنی بہترین قوتِ مشاہدہ کی بدولت خود ہی سمجھ لیا۔
میں نے جب گزشتہ تحریر بھارت کے ارب پتی مکیش امبانی کی بیٹی کی شادی پر ہونے والے بے مہار اخراجات پر لکھی تھی تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ امبانی کا پیسہ ہے اس کی مرضی جیسے دل چاہے خرچ کرے۔ لیکن میں ایسی کسی احمقانہ بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ پیسہ اپنی محنت کی کمائی سے حاصل کیا ہو تو بھی انتہا سے زیادہ لٹانا معاشرتی مساوات پر ایک تازیانہ بن جاتا ہے، جس سے غریب طبقے کا احساسِ محرومی مزید بڑھتا ہے۔ اسی احساسِ محرومی کے تحت وقت کسی بھی لمحے بے رحم ہوکر غریب کو مجرم بنا ڈالتا ہے۔
لیکن اگر یہ دولت دنیا کے کسی بھی امبانی نے دوسروں کا حق مار کر حاصل کی ہو، اور پھر وہ اس پر اکڑ بھی دکھائے تو یہ ایک ناقابلِ معافی قومی جرم ہے اور اس جرم کا حال ہی میں، میرے خاندان کی سب سے قریبی شادی میں بڑے دھڑلے سے ارتکاب کیا گیا۔ مہمانوں کی طرح بیٹھے میرے سارے اپنے، اپنا شرعی اور قانونی حق غیروں کی جھولیوں میں گرتا دیکھتے رہے اور خون کے گھونٹ اتارتے رہے۔
جس خاندان میں میں نے جنم لیا وہ بیٹیوں کی نعمت سے مالا مال تھا۔ میرے دادا کے آنگن میں سات بیٹیاں چاہت کے سائے میں پروان چڑھیں اور وقار کے ساتھ رخصت ہوئیں۔ ان کو پیار، محبت اور بہت سارا جہیز دے کر رخصت تو کردیا گیا مگر کروڑوں کی جائیداد مردانہ ہاتھوں کی سخت گرفت سے باہر نہ نکل سکی۔ پھوپھیاں اپنے اپنے شوہروں کی آمدنی میں زندگی کو دھکیلتیں تو کبھی زندگی ان کو دھکیلتی، لیکن مجال نہ ہوئی کہ باپ کی وراثت میں سے اپنے حق کا کبھی سوال بھی کردیتیں۔
یوں دونوں چچا، دادا کی ساری جائیداد کے خودساختہ وارث بن بیٹھے۔ پیسے سے مزید پیسہ پیٹتے رہے اور دونوں ہاتھوں سے لٹاتے رہے۔ دولت کے بل پر اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیمی اداروں تک پہنچایا، سرکاری نوکریوں کے دروازے اسی دولت کے زور پر وا کروائے اور اب بچوں کی شادی کا وقت آیا تو ان کی خوشیوں کے نام پرنمود ونمائش کی ساری حدیں ہی پار کرلیں۔ سات بہنوں کے شرعی اور قانونی حقِ وراثت پر اتنا بڑا ڈاکا ڈالنے کے بعد بھی ان سب کا اعتماد دیدنی تھا۔
وراثت ان بہت سارے اہم موضوعات میں سے ایک موضوع ہے جن پر لکھنے والے لکھ لکھ کر اتنا تھک چکے ہیں جیسے میلوں میل پیدل چلتا مسافر کسی فٹ پاتھ پر تھک کر پڑ جائے، مگر افسوس! معاشرے کی استیصالی روایتیں ستم ڈھا ڈھاکر نڈھال نہ ہوئیں۔ جہیز کے نام پر دنیا جہاں کا سامان حاضر کردینے والے وراثت میں بیٹیوں کا حق تسلیم کرنے سے ہی منکر ہوجاتے ہیں۔ ان کا دین جائے نماز کے ساتھ لپٹ جاتا ہے اور رمضان کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔
یہ لوگ اکثر دل کی بے چینی سے گھبرا کر دین کے ظاہری شعائر اپنانے کی پوری کوششیں کرتے ہیں۔ حج، کبھی عمرے، تو کبھی غریبوں کو لنگر کھلاکھلا کر اپنی مردہ روحانیت میں پھونکیں مارنے کی لاحاصل سی جدوجہد کرتے رہتے ہیں، لیکن ایک قرار اور سکون کی دولت ہی تو ہے جو حق مارنے والوں کا نصیب بن کر نہیں دیتی۔ سیاست سے لے کر سماجیات اور معیشت سے لے کر مذہب تک، تمام موضوعات پر گھنٹوں بے تکان بولنے والوں کی زبان وراثت کے معاملے پر آکر گونگی ہوجاتی ہے۔ اس نا انصافی کی بدولت کوئی چاہے کتنا بھی رئیس ہوجائے وہ لوگوں کی نظروں میں معتبر نہیں ٹھہر سکتا۔
اس معاملے میں جتنا قصوروار میں حق مارنے والوں کو سمجھتی ہوں اتنے ہی قصوروار میرے نزدیک اپنا شرعی اور قانونی حق چھوڑ کر صبر کر بیٹھنے والے ہیں۔ اسی لیے اکثر اپنی ناراضگی کا اظہار کرکے پھوپھیوں کے بھی خاموش رویوں کو بریک لگانے کی کوششیں کرتی ہوں، روایتوں سے بغاوت کے وہ اسباق جو بنا کسی کے سمجھائے میں نے چھوٹی سی عمر میں رَٹ لیے تھے، اب اپنی پھوپھیوں کو یاد کروانے کی سعی کرتی ہوں، قانونی کارروائی کے لیے اکساتی ہوں، لیکن ان سب کی چپ اور ضبط پر ”آفرین“ ہے، سادہ لوح بندیاں اللہ سے جانے کس اچھے بدلے کی امید میں اپنے اس حق پر قل ہو اللہ پڑھ چکی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ظلم اور جبر بس اسی کے حصے میں آتا ہے جو اس کو سہنے کے موڈ میں ہو۔ بدقسمتی سے ہماری قوم پر یہ موڈ مجموعی طور پر سوار رہتا ہے، جس کا نتیجہ آج تک کچھ نہ نکل سکا ماسوائے جابر حکم رانوں اور حق مارنے والوں کے۔